نیا پاکستان کارڈ ایک خیالی منصوبہ کیوں ہے؟


کپتان حکومت کی جانب سے احساس پروگرام کے تحت نیا پاکستان کارڈ متعارف کروائے جانے کے بعد مبصرین نے اس پروگرام کا پوسٹ مارٹم کرکے ثابت کردیا ہے کہ یہ منصوبہ بھی محض خیالی پلاؤ ہے کیونکہ حکومت کے پاس اسے چلانے کے لئے فنڈز ہی نہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نئے پاکستان میں احتساب کے ڈرامے کا ڈراپ سین ہونے کے بعد تحریک انصاف حکومت نے عوامی راحتوں کا خیالی پلاؤ پکانا شروع کر دیا ہے یعنی عوام کو احساس پروگرام کے نام پر ماموں بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ بلدیاتی انتخابات اور اگلے الیکشن میں ووٹ خریدے جائیں تاہم جس طرح ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے کپتان حکومت کی کرپشن اور بیڈ گورننس ناکام کی اسی طرح احساس پروگرام کے چورن کی حقیقت بھی کھل کر سامنے آگئی ہے۔
سنیئر صحافی اور تجزیہ نگار امتیاز عالم اپنی تازہ تحریر میں کہتے ہیں کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی پاکستان میں کرپشن کے حوالے سے شرمناک ترین رپورٹ پر ابھی پشیمانی ختم نہیں ہوئی تھی کہ وزیراعظم عمران خان نے پشاور میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کے دوران ایک حیران کن نیا پاکستان کارڈ میں شامل چھ احساس پروگرامز کا اعلان کر کے حیرت زدہ کردیا۔ وہ کہتے ہیں کہ نوجوانوں کی تکنیکی تربیت کو چھوڑ کر دیگر پانچ پروگرام پر جو خرچ آنا ہے وہ پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار یعنی جی ڈی پی کے تقریباً مساوی ہے۔ پاکستان کا کل جی ڈی پی 280 ارب ڈالرز ہے، 177روپے کی ڈالرز سے شرح تبادلہ پر یعنی 49,560 ارب روپے جبکہ 5 احساس پروگرام پہ اُٹھنے والا خرچ 49,258 ارب روپے بنتا ہے۔ طلبا اور نوجوانوں کے لیے قرضے علیحدہ ہیں۔
امتیاز عالم کہتے ہیں کہ اب جب کرپشن اور احتساب کا ایجنڈا اپنی ساکھ کھو بیٹھا تو عمران حکومت کو عوامی فلاح کے سنہرے خوابوں کا نمائشی و فرضی ماحول بنانے کی سوجھی کہ اب عام انتخابات کا موسم شروع ہوا چاہتا ہے۔ نہایت ہی نفیس خاتون محترمہ ثانیہ نشتر کرتیں بھی کیا کہ انہیں صبح و شام خان صاحب کی فرمائشوں کی تکمیل کے لیے نت نئے منصوبوں کا اعلان کرنے پہ مجبور کیا گیا۔ کبھی وہ بے گھروں کے لیے چھتیں فراہم کرتیں اور آرام گاہیں بناتی نظر آئیں، تصویریں کھنچیں اور دو چار جگہ پہ یہ بنیں بھی اور ویران ہوگئیں۔ پھر بھوکوں کے لیے دسترخوان بنوائے گئے۔ دو چار ٹرکوں پہ کھانا فراہم کرنے کابندوبست کیا گیا، خان صاحب بہ نفس نفیس معائنہ کرنے پہنچے اور جانے پھر گھومتے پھرتے ٹرک کہاں غائب ہوگئے۔ پوچھنا پڑتا ہے کہ وہ جو پبلک ٹائلٹس کا پروگرام شروع کیا گیا تھا، اب جو پشاور میں اعلان کیا گیا ہے وہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا پروگرام ہے۔ غریبوں کے دکھوں کے مداوے کا سب سے عظیم تر پروگرام۔ عقل حیران ہے کہ کسی نے بیٹھ کر حساب کتاب بھی کیا ہے کہ اس پر کیا خرچ آنا ہے اور اتنی رقم کہاں سے اور کیسے آنی ہے۔ بھلا شیخ چلیوں کو اس کی کیا پڑی ہے؟
نیا پاکستان کے چھ احساس پروگرامز کی تفصیل حکومتی چالوں کو خوب بے نقاب کر رہی ہے۔ پاکستان کی آبادی 22 کروڑ ہے اور اوسط خاندان 6.5افراد پر مشتمل ہے۔ عمران حکومت کے نیا پاکستان کارڈ کا زور 37 لاکھ خاندانوں پر ہے، یوں دو کروڑ 22 لاکھ نفوس اس کے چھ احساس پروگراموں سے مستفید ہوں گے۔ 37 لاکھ خاندانوں کے گھروں کے لیے فی کس 27 لاکھ روپے قرض بینکوں سے دلوایا جائے گا جس پر 8.75 فیصد سالانہ شرح سود حکومت نے ادا کرنا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ بینک 9990 ارب روپے کا قرض کہاں سے فراہم کریں گے، جبکہ حکومت کو اس پر سالانہ 870 ارب روپے سود دینا ہوگا حالانکہ دوسری جانب کل ترقیاتی پروگرام کم ہوکر 700 ارب روپے کا رہ گیا ہے۔ 37 لاکھ خاندانوں کے لیے فی کس 5 لاکھ قرض برائے کاروبار بینکوں کو 187ارب روپے قرض فراہم کرنا ہوگا جس پر حکومت کو 211 ارب روپے سود کی مد میں ادا کرنے ہوں گے۔ 12.5 ایکڑ تک کے مالک 56 لاکھ کسانوں کو فی کس 5 لاکھ روپے بینک 2800 ارب روپے قرض دیں گے جس پر حکومت سالانہ 320 ارب روپے ادا کرے گی۔ ہیلتھ کارڈ سب کے لیے ہے۔ 3 کروڑ 38 لاکھ خاندانوں پہ کل خرچ 33,800 ارب روپے آئے گا جو حکومت ادا کرے گی۔ دو کروڑ لوگوں کے لیے سستے راشن پر فی کس 15000 روپے ماہانہ حکومت 30 فیصد ادا کرے گی جو 1080 ارب روپے بنتا ہے۔ نوجوانوں، علماء کرام اور ناداروں کے لیے پروگرام علیحدہ ہیں۔ ان سب کو ملا لیا جائے تو کل اخراجات پاکستان کی مجموعی قومی آمدنی سے کہیں بڑھ جاتے ہیں۔ آخر یہ عوامی خدمت اور فلاح کا ڈرامہ کیا ہے؟ فرض کریں اعلان کردہ آبادی میں سے 5فیصد بھی ان پروگرامز سے فیضیاب ہوجائیں تو باقیوں کو اُمید پہ زندہ رکھا جاسکتا ہے۔ امتیاز عالم کے بقول ابھی سے تحریک انصاف کے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے اراکین اور مقامی حکومتوں کے اُمیدواروں کو ہدایات کردی گئی ہیں کہ وہ اپنے اپنے حلقوں میں جائیں اور احساس پروگرام کے مختلف خالی فارموں کو امداد کے منتظر عوام اور رائے دہندگان سے پُر کروائیں اور تحریک انصاف کو ووٹ دینے کا لالچ دیں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ وہ بعد میں تحریک انصاف اور اس کے لیڈروں کو کوستے پھریں گے۔
جو بات انتہائی قابل اعتراض ہے وہ یہ کہ جب غربت اور گھریلوآمدنی کے حوالے سےسروے ہوچکے ہیں اور ان چھ احساس پروگراموں کے لیے سافٹ ویئر بھی بن چکے ہیں تو پھر تحریک انصاف کے امیدوار کیوں فارم بھرواتے پھریں گے، سوائے اس لیے کہ وہ ان خیالی کارڈوں کے بدلے ووٹ خریدتے پھریں۔ اس ملک میں کیا کیا تماشے ہیں جو نہیں کیے گئے۔ اِک تماشہ اور سہی۔ بقول امتیاز عالم نیا پاکستان کارڈ کا اعلان چونکہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے دو روز بعد ہوا تو ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کو خبر نہ تھی کہ عوامی سہولیات کے لیے اعلان کردہ احساس پروگراموں میں اس قدر گمراہ کن و خوش کن تاریخی جھوٹ اتنی ڈھٹائی سے بولے جاسکتے ہیں۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی 2021ء کے کرپشن پرسیپشن انڈیکس کے حوالے سے امتیاز عالم کہتے ہیں کہ کرپشن سے پاک عمران خان حکومت کے دور میں کرپٹ ممالک کی فہرست میں پاکستان کا نمبر 180 ملکوں میں 120 سے 124ویں نمبر پر گرگیا ہے یعنی کرپشن میں مزید چار درجے اضافہ ہوا ہے۔ کرپشن کو جڑ سے اُکھاڑنے اور چوروں اور کرپٹ سیاستدانوں کا کڑا احتساب کرنے کے ایجنڈے پہ قائم ہونے والی حکومت کے بارے میں 85.9فیصد عوام نے عمران حکومت کے احتساب پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے ، بلکہ کہا ہے کہ ان کی حکومت میں کرپشن اور بڑھ گئی ہے۔ بھاری اکثریت کے خیال میں وفاقی حکومت کی خود احتسابی بھی اطمینان بخش نہیں، جبکہ 66.8 فیصد لوگوں کی رائے میں احتساب یکطرفہ ہے۔ مہنگائی سے بلبلاتے عوام میں 92.9 فیصد کی رائے میں موجودہ حکومت کے دور میں انہیں بدترین مہنگائی کا سامنا ہے اور 85.9 فیصد کے تئیں ان کی آمدنی اور قوت خرید کم ہوگئی ہے۔ پولیس اور عدلیہ میں اصلاحات لانے کی دعویدار حکومت کے دور میں پولیس کرپشن میں اول اور عدلیہ دوسرے نمبر پر آئی ہے۔

Back to top button