پولیس حکام قاتل ڈور بنانے والوں کا نیٹ ورک کیوں نہیں توڑ پاتے؟


فیصل آباد میں نوجوان کی افطاری کے وقت گھر واپسی پر ڈور پھرنے سے ہلاکت کے بعد پنجاب بھر میں پتنگ بازی کیخلاف پولیس کی مہم بھرپور طریقے سے جاری ہے جس کیلئے ڈرون کیمروں اور دور بینوں کا بھی استعمال کیا جا رہا ہے، پتنگ بازی کو روکنے کیلئے اس وقت پوری ریاستی مشینری متحرک ہے۔اس تحریک کی وجہ بننے والا فیصل آباد کا وہ واقعہ ہے جس میں گزشتہ دنوں ایک 22 سالہ نوجوان آصف اشفاق افطاری کے وقت گھر جاتے ہوئے تیز دھار ڈور کا شکار بنا۔ سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سفید کپڑوں میں ملبوس ایک نوجوان اچانک موٹرسائیکل سے گرتا ہے اور اپنا گلہ تھام لیتا ہے جس سے خون کے فوارے نکل رہے ہوتے ہیں۔پولیس کے مطابق اس نوجوان کو قریبی ہسپتال منتقل کیا گیا، لیکن خون اتنا بہہ چکا تھا کہ وہ جانبر نہ ہو سکا، اس واقعے کا نوٹس پنجاب کی وزیراعلٰی مریم نواز نے بھی لیا اور اس نوجوان کے گھر پُرسہ دینے بھی پہنچ گئیں۔ اس کے بعد انہوں نے پنجاب پولیس کو حکم جاری کیا ہے کہ پتنگ بازی کرنے والوں، پتنگیں بیچنے والوں اور تیار کرنے والوں کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کی جائے۔پاکستان میں گذشتہ دو دہائیوں سے پتنگ بازی پر پابندی ہے، لیکن اس کے باوجود ہر سال بہار کے موسم میں اس کھیل کے شوقین کوئی نہ کوئی راستہ نکال لیتے ہیں جس کے نتیجے میں کئی جانیں بھی ضائع ہو جاتی ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ قانون اور پولیس کی سختی کے باوجود خفیہ طریقے سے اس کھیل کا سازوسامان بنانے اور ترسیل کرنے کا عمل رُک نہیں رہا۔20 برسوں سے پتنگ بازی پر جاری حکومتی جنگ کے باوجود اس کھیل کا اس طرح سے موجود رہنا بہرحال ایک سوال تو ہے تاہم سماجیات پر گہری نظر رکھنے والے اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ بسنت اور بہار کا تعلق بہت پرانا ہے اور یہ اس خطے کے باسیوں کے لاشعور میں ہے البتہ پولیس اس کو اب لاشعور سے شعور میں لانے کی کوشش کر رہی ہے۔ڈی آئی جی آپریشن لاہور علی رضوی نے ’’اردو نیوز‘‘ کو بتایا کہ ’پولیس اپنے طور پر پوری کوشش کر رہی ہے، ’ڈرون کیمروں اور دُور بینوں سے ہم نے مانیٹرنگ شروع کر رکھی ہے، لیکن اصل چیلنج سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے ذریعے پتنگ بازی کی ترسیل کا معاملہ ہے، اُن کے مطابق ’اس پر اب ہم گھیرا تنگ کر رہے ہیں کیونکہ اب بازار میں آپ کو پتنگ بازی کا سامان نہیں ملتا، ہم نے لاہور میں ایک بہت بڑی کھیپ پکڑی ہے اور مزید کارروائیاں بھی جاری ہیں۔خیال رہے کہ گزشتہ برس مارچ میں ہی پولیس نے فیس بُک پر کائیٹ فلائنگ ایسوسی ایشن نامی ایک گروپ کے دو ایڈمنز کو گوجرانوالہ اور راولپنڈی سے حراست میں لیا تھا، علی رضوی بتاتے ہیں کہ ’اب بھی ہم سخت مانیٹرنگ جاری رکھے ہوئے ہیں، تاہم ان تمام کوششوں کے باوجود سوشل میڈیا کے ذریعے جاری رہنے والے اس کاروبار اور اس کھیل کے اعدادوشمار حیرت انگیز ہیں، پنجاب پولیس کے مطابق گزشتہ ایک ماہ کے دوران صوبہ بھر میں اینٹی کائٹ فلائنگ ایکٹ کے تحت 3328 مقدمات درج کر کے 3461 افراد کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔اس حوالے سے پنجاب پولیس کا مزید کہنا ہے کہ ’ملزمان کے قبضے سے 2 لاکھ 12 ہزار 881 پتنگیں اور 14 ہزار 514 چرخیاں برآمد کی گئی ہیں، آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا کہ ’اس وقت ہمارا اصل ٹارگٹ اس کھیل میں مہیا ہونے والے سازوسامان کے نیٹ ورک کو توڑنا ہے۔

Back to top button