پولیس کرونا کے باعث رہا 800 قیدی گرفتار کرنے میں ناکام

سپریم کورٹ کی جانب سے کرونا وائرس پھیلنے کے خدشے کی وجہ سے رہا کیے گئے 800 سے زائد قیدیوں کی دوبارہ گرفتاری کے حکم کے باوجود اب تک اسلام آباد اور سندھ پولیس صرف تین درجن افراد کو ہی پکڑ پائی ہے کیونکہ زیادہ تر مجرمان کے گھروں کا ریکارڈ ہی دستیاب نہیں۔
کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے خدشے کے پیش نظر اسلام آباد ہائی کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ نے مارچ میں ان انڈر ٹرائل قیدیوں کو رہا کرنے کا حکم دیا تھا جن پر عائد الزامات پر سزا سات سال سے کم تھی۔ ان دونوں عدالتوں کے حکم پر مجموعی طور پر 800 سے زائد قیدیوں کو رہا کیا گیا بعدازاں سپریم کورٹ نے ہائیکورٹس کے دئیے گئے رہائی کے حکم کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ملزمان کو دوبارہ گرفتار کرنے کا حکم دیا۔ سپریم کورٹ کی طرف سے رہا کئے گئے ملزمان کی گرفتاری کے حکم کے بعد پولیس کی طرف سے کئی ملزمان کے گھروں پر چھاپے بھی مارے گئے ہیں لیکن پولیس مطلوبہ ملزمان کو گرفتار کرنے میں ناکام رہی۔ اسکے علاوہ پولیس کے پاس بیشتر رہا ہونے والے مجرمان کے گھروں کا پتہ ہی دستیاب نہیں ہے۔
اسلام آباد پولیس کے ایک اہلکار کے مطابق پولیس نے رہا کئے جانے والے 270 افراد میں سے صرف آٹھ ملزمان کو گرفتار کیا ہے جبکہ آٹھ ہی ملزمان کی ضمانتیں ہو چکی ہیں۔ اہلکار کے مطابق رہا کیے گئے ملزمان میں سے اکثریت کے خلاف مقدمات اسلام آباد کے 15 تھانوں میں درج ہیں۔ پولیس حکام اور ضلعی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ رہا کیے جانے والے افراد میں اکثریت معمولی جرائم میں ملوث تھی جن میں خدشہ نقص امن کے مقدمات بھی شامل تھے اور چونکہ ایسے مقدمات میں ریاست مدعی ہوتی ہے اس لیے اُنھیں عدالت عالیہ کے حکم پر رہا کیا گیا۔
اسلام آباد پولیس اہلکار کے مطابق رہا کیے جانے والوں میں ایسے ملزمان کی بھی ایک قابل ذکر تعداد ہے جنھیں انسداد گداگری ایکٹ کی خلاف ورزی پر گرفتار کیا گیا تھا اور جرم ثابت ہونے پر اس قانون کے تحت مجرم کو تین سال تک قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔ بڑا مسلہ یہ ہے کہ متعلقہ تھانوں کے پاس ایسے ملزمان کا ریکارڈ نہ ہونے کے برابر ہے جس کی وجہ سے ان کی دوبارہ گرفتاری مشکل ترین مرحلہ ہے کیونکہ اس میں قانونی پچیدگیاں بہت زیادہ ہیں۔ اسلام آباد پولیس کے مطابق گداگری کے ملزمان کہاں ہوں گے یہ کسی کو معلوم نہیں ہے کیونکہ گداگروں کے گینگ ہر ہفتے اپنا ٹھکانہ بدلتے رہتے ہیں۔ ریزرو پولیس اور تھانوں میں تعینات پولیس اہلکاروں کی کرونا کی وجہ سے اضافی ڈیوٹیوں کے باعث بھی ان ملزمان کی دوبارہ گرفتاری ایک مشکل مرحلہ ہے۔
اسلام آباد کے ایڈووکیٹ جنرل نیاز اللہ نیازی کا کہنا ہے کہ ملزمان کی ضمانت کے معاملے میں سپریم کورٹ کے حکم نامے کو بھی دیکھا جا رہا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 55 سال کے ملزمان ضمانت کے حقدار ہیں تاہم اس سلسلے میں بھی پہلے ملزمان کی گرفتاری ضروری ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ ان انڈر ٹرائل ملزمان کی گرفتاری سے متعلق رپورٹ 20 اپریل کو سپریم کورٹ میں جمع کروائی جائے گی۔ اسلام آباد کے علاوہ صوبہ سندھ میں ابھی ایسے ملزمان کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے جنھیں سپریم کورٹ کے حکم پر عملدرآمد کرتے ہوئے دوبارہ گرفتار کیا گیا ہو۔
واضح رہے کہ سندھ ہائی کورٹ کے حکم پر 500 سے زیادہ ملزمان کو رہا کیا گیا ہے اور سندھ پولیس کے ذرائع کے مطابق رہا کیے گئے زیادہ تر افراد کا تعلق اندرون سندھ سے ہے۔ پولیس حکام کے پاس دوبارہ گرفتار کئے جانے والے افراد کے اعداد و شمار ہی دستیاب نہیں۔ تاہم سندھ پولیس کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پربتایا کہ اب تک رہا کیے جانے والے ملزمان میں سے صرف 27 افراد کو ہی دوبارہ گرفتار کیا جا سکا ہے۔اہلکار کے مطابق صوبے کی مختلف جیلوں سے جن ملزمان کو رہا کیا گیا ان میں سے زیادہ تر مقدمات میں مدعی ریاست نہیں تھی بلکہ عام لوگ تھے اور ان ملزمان کی رہائی کے لیے مدعیان سے نہ کوئی رائے لی گئی اور نہ ہی انھیں کسی بھی ضلعی انتظامیہ کی طرف سے کوئی نوٹس جاری کیا گیا۔اسلام آباد کے سابق ایڈووکیٹ جنرل طارق محمود جہانگیری کا کہنا تھا کہ ریاست کوئی بھی ایسا مقدمہ واپس لے سکتی ہے جس میں مدعی ریاست خود ہو لیکن جہاں پر معاملہ نجی ہو تو قانون کے مطابق اس میں ریاست مدعی مقدمہ کو کسی طور پر نظر انداز نہیں کر سکتی۔ ذرائع کے مطابق ضمانت پر رہائی کے بعد زیادہ تر ملزمان روپوش ہو چکے ہیں اور مستقبل قریب میں بھی ان کی گرفتاری کے امکانات نظر نہیں آتے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سپریم کورٹ رہا کردہ ملزمان کو گرفتار کرنے میں ناکامی پر پولیس کے خلاف کیا ایکشن لیتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button