’پہاڑوں کا بیٹا‘ سدپارہ ہمیشہ کے لیے پہاڑوں میں سو گیا


سردیوں کے موسم میں K2 کو سر کرنے کی مہم کے دوران لاپتہ ہونے والے علی سدپارہ کے لیے مہم جوئی صرف شوق ہی نہیں بلکہ جنون اور عشق بھی تھی۔ علی سد پارہ خود کو پہاڑوں کا بیٹا کہتے تھے اور اسی لیے پہاڑوں کے اس بیٹے نے ہمیشہ کے لیے پہاڑوں میں سو جانے کا فیصلہ کیا۔ 18 فروری کو ایک پریس کانفرنس میں گلگت بلتستان کے حکام نے پاکستانی کوہ پیما علی سدپارہ سمیت دنیا کے دوسرے بلند ترین پہاڑ کو سر کرنے کی کوشش کے دوران لاپتہ ہونے والے تینوں کوہ پیماؤں کی موت کا اعلان کرتے ہوئے ان کی تلاش کےلیے جاری آپریشن ختم کرنے کا اعلان کیا۔ علی سدپارہ، آئس لینڈ کے جان سنوری اور چلی کے ہوان پابلو موہر کو پانچ فروری کو آٹھ ہزار میٹر سے زیادہ بلندی پر کے ٹو کی چوٹی کے قریب آخری مرتبہ علی سدپارہ کے بیٹے ساجد سدپارہ نے دیکھا تھا جو آکسیجن ریگولیٹر کی خرابی کی وجہ سے مہم ادھوری چھوڑ کر واپس آنے پر مجبور ہو گئے تھے۔
اپنے والد سمیت تینوں کوہ پیماؤں کی موت کا اعلان بھی ساجد نے اسکردو میں منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں کیا۔ ساجد سدپارہ کا کہنا تھا کہ کےٹو نے میرے والد کو ہمیشہ کےلیے اپنی آغوش میں لے لیا ہے۔ علی سدپارہ کے دودرے بیٹے مظاہر نے اپنے والد کی یادیں شیئر کرتے ہوئے کہا کہ میرے ابو حوصلے کا پہاڑ تھے۔ کوہ پیمائی کی ہر مہم پر جانے سے پہلے امی اور ہم لوگوں سے ہنستے مسکراتے مل کر جاتے اور تسلی دیتے کہ سب ٹھیک ہوگا۔ وہ بس ایک ہی بات کہتے تھے کہ تم لوگوں نے پریشان نہیں ہونا اور ہر صورت حال کا سامنا کرنا ہے۔ کے ٹو کی مہم پر جانے سے پہلے بھی انہوں نے ہم سے یہی کہا تھا۔ مظاہر نے بتایا کہ ہم نے اپنے ابو کو ہمیشہ ہنستے مسکراتے دیکھا۔ وہ تو پہاڑوں کے عشق میں مبتلا تھے اور کوہ پیمائی تو ان کا جنون تھا۔ وہ مجھے ہمیشہ کہتے تھے کہ مزہ تو تب ہے جب تم تعلیم حاصل کرو اور کوئی بہت بڑا کارنامہ سرانجام دو۔
یاد رہے کہ 45 سالہ محمد علی سدپارہ کو موسم سرما میں دنیا کی بلند ترین چوٹی نانگا پربت سر کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ کوہ پیمائی میں اپنی خاص مہارت کی وجہ سے انہیں قومی اور بین الاقوامی سطح پر شہرت حاصل ہوئی۔ مظاہر کے مطابق ان کے والد اکثر اپنے بچوں سے کہا کرتے کہ دیکھو میرے کتنے دوست اور ساتھی اس خطرناک کوہ پیمائی کے کھیل کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔ درحقیقت وہ چاہتے تھے کہ پہلے ہم اچھی تعلیم حاصل کریں، پھر چاہیں تو کوہ پیمائی کا شوق پورا کریں۔ میرے ابو کا ماننا تھا کہ اگر ہم اچھی تعلیم حاصل کر پائیں گے تو اس کی مدد سے ہم کوہ پیمائی میں بھی بہتر کارگردگی کا مظاہرہ کر سکیں گے۔ مگر مظاہر کہتے ہیں کہ شاید کوہ پیمائی ہمارے خون میں شامل ہے۔ مظاہر کے مطابق انہوں نے اپنے ابو کی تعلیم حاصل کرنے کی بات سے اتفاق کیا اور اپنی تمام تر توجہ پڑھائی پر مرکوز کی۔ لیکن میرے بڑے بھائی ساجد سد پارہ بالکل ابو جیسے ہیں۔ انہوں نے کوہ پیمائی جاری رکھی جس کے نتیجے میں ابو ہر مہم پر اب ان کو ساتھ لے کر جانے لگے تھے۔
اپنے آخری مشن پر ساجد کو ساتھ لے جانے والے علی سدپارہ نے چوٹی پر پہنچنے سے پہلے اپنے بیٹے کو واپس بھیج دیا تھا چونکہ اس کے آکسیجن سلنڈر کا ریگولیٹر خراب ہو گیا تھا۔ یوں ساجد سدپارہ زندہ واپس آ گیا۔ مظاہر بتاتے ہیں کہ ابو نے انکے برے بھائی ساجد کو کہا کہ ریگولیٹر کے بغیر اب وہ مزید اوپر نہیں جا سکتے۔ساجد نے اس نازک موقع پر کوئی بحث نہیں کی کیوں کہ انکے والد تاریخ ساز کامیابی حاصل کرنے واکے تھے۔ مظاہر کہتے ہیں کہ جب ساجد نیچے آ رہا تھا تو ابو نے اسے انتہائی جذباتی انداز میں زور سے بھینچ کر گلے لگایا۔ پھر ہدایت کی کہ احتیاط سے جانا۔ خیال رکھنا، ہم بھی جلد ہی واپس آ جائیں ہیں۔ جب ساجد نیچے اتر رہے تھے تو ابو کافی دیر تک اُن کو دیکھتے رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ شاید ابو کی چھٹی حس نے انہیں کسی ناگہانی آفت سے وقت سے پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا۔ انہوں نے اپنے مزاج کے برخلاف ساجد کو واپس بھیجا تھا۔
علی سدپارہ کے قریبی دوست اور ساتھی علی محمد نے بتایا کہ علی کے معاشی حالات ابتدا میں کچھ اتنے اچھے نہیں تھے۔ اس مقام تک پہچنے کے لیے انہوں نے انتھک محنت اور جدوجہد کی تھی۔ انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز ہائی ایلٹیٹیوڈ پورٹر کی حیثیت سے کیا۔ وہ ایسے پورٹر بنے جو کوہ پیماؤں کے ساتھ بلندی پر جاتے اور پہاڑ سر کرنے میں اُن کی مدد کرتے اور ان کا سامان اٹھاتے۔ وہ یاد کرتے ہیں کہ بحثیت پورٹر سدپارہ اپنا کام انتہائی محنت اور ایمانداری سے کرتے اور پورٹر ہونے کے ساتھ انہوں نے کوہ پیمائی سیکھنا شروع کی۔ تھوڑے عرصے میں کوہ پیمائی میں مہارت حاصل کرنے کے بعد انہوں نے خود ناصرف نجی حیثیت میں کوہ پیمائی شروع کر دی تھی بلکہ وہ کوہ پیماؤں کےلیے فکسر کی خدمات بھی انجام دیتے تھے۔ علی محمد کے مطابق دنیا کے کئی بڑے کوہ پیماؤں کی تاریخ ساز کامیاب مہموں میں علی سدپارہ کی محنت کارفرما تھی۔ علی سدپارہ ان کوہ پیماؤں کےلیے دشوار گزار پہاڑی راستوں پر رسیاں باندھتے جن کی مدد سے کوہ پیما چوٹیاں سر کرنے میں کامیاب ہوتے۔ علی سدپارہ کے بیٹے مظاہر نے بتایا کہ ابو ہمیشہ ہمیں کہا کرتے تھے کہ جو کام بھی کرو پوری محنت، جوش اور جذبے سے کرو پھر یہ ممکن نہیں کہ ناکامی ہو۔ وہ ہمیں بتایا کرتے تھے کہ کوہ پیمائی کے وسائل نہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے کئی سال تک پورٹر کی حیثیت سے کام کیا تھا۔ علی محمد کا کہنا تھا کہ محمد علی سد پارہ ’پہاڑوں کا بیٹا‘ تھا۔ پہاڑ اور کوہ پیمائی ان کے خون میں شامل تھے۔ اس لیے کوئی خاص مدد حاصل نہ ہونے کے باوجود بھی وہ جلد کامیابیاں حاصل کرتے چلے گئے۔ میرے خیال میں علی گزشتہ صدی کے بہترین کوہ پیما تھے۔ انکا کہنا تھا کہ شاید پاکستان میں دوبارہ کوئی اور محمد علی سد پارہ پیدا نہیں ہو سکے گا۔ اگر محمد علی سد پارہ کے پاس وسائل ہوتے تو اس کے کارناموں اور ریکارڈز کی تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہوتی جو اب ہے، علی محمد کا دعویٰ ہے کہ محمد علی سدپارہ تاریخ کا شاید وہ واحد کوہ پیما تھے جنہوں نے اپنی ہر مہم کو بغیر آکسیجن کے سر کیا۔ ایسا کرنا کسی دوسرے کوہ پیما کے بس کی بات نہیں۔ یہ صرف علی ہی کر سکتے تھے۔ میرا خیال ہے کہ مستقبل میں لوگ محمد علی سد پارہ پر تحقیق کیا کریں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button