پی ٹی آئی کے اندر کونسا سیاسی دھماکہ ہونے جارہا ہے؟

معروف اینکر پرسن اور تجزیہ کار سلیم صافی نے کہا ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کے منت ترلوں اور بلیک میلنگ سے مطلوبہ نتیجہ نہ ملنے کے بعد اب عمران خان کے پائوں کسی حد تک زمین پر آگئے ہیں۔ ان کی پارٹی میں درون خانہ پھوٹ پڑگئی ہے اور جلد ایک بڑا سیاسی دھماکہ ہونے والا ہے۔ ایسے میں حکمران اتحاد کے پاس ایک راستہ یہ ہے کہ عمران کو کمزور دیکھ کر حساب برابر کرنا شروع کردے اور دوسرا راستہ یہ ہے کہ بڑے پن کا مظاہرہ کر کے انہیں مذاکرات کی دعوت دے۔ انکا کہنا ہے کہ عمران ابھی تک مذاکرات سے اس لئے انکار کرتے رہے کہ ایک تو انہوں نے اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ سے کسی واردات کی امید لگا رکھی تھی اور دوسرا وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے جو کچھ کیا ہے اور کر رہے ہیں، اس وجہ سے شاید حکومت ان سے بات بھی نہیں کرے گی۔ اس لئے انہوں نے یہ رٹ لگا رکھی ہے کہ میں مذاکرات نہیں کروں گا، لیکن حقیقت میں ان کی دو رکنی ٹیم حکومت کی دو رکنی ٹیم سے خفیہ مذاکرات کا ایک راونڈ کر چکی یے۔ عمران خود بھی تسلیم کر چکے ہیں کہ ان کے حکومت کیساتھ بیک ڈور مذاکرات جاری ہیں۔ اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں سلیم صافی کہتے ہیں کہ بظاہر تو وفاقی حکومت اور عمران کا بیٹھنا اور مشترکہ نکات پر متفق ہونا بہت مشکل نظر آتا ہے لیکن اگر ایک اور حوالے سے دیکھا جائے تو دونوں فریقوں میں اب کوئی بڑا فرق نہیں رہا۔
مثلا سات ماہ قبل جو عمران خان کہہ رہے تھے، آج وہی آصف زرداری، شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمان کہہ رہے ہیں اور جو کچھ یہ تین لیڈران ماضی میں کہہ رہے تھے آج وہ عمران کہہ رہے ہیں۔ تب عمران اور ان کے ساتھیوں کو اداروں کے وقار کی بڑی فکر تھی اور ان پر تنقید کرنے والے نواز شریف ، مریم نواز اور مولانا وغیرہ کو غدار اور قابل گردن زدنی قرار دے رہے تھے اور آج یہی فکر نواز، شہباز، زرداری اور مولانا کو لاحق ہوگئی ہے اور وہ اداروں پر تنقید کرنے والے عمران خان کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں۔ کل تک موجودہ حکمران جماعتیں جلد انتخابات چاہتی تھیں اور عمران کہہ رہے تھے کہ اسمبلی اپنی مدت پوری کرے گی اور آج عمران جلد انتخابات چاہتے ہیں جبکہ اتحادی حکمران کہہ رہے ہیں کہ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں گی۔ گویا کل کی پی ٹی آئی آج کا حکومتی اتحاد ہے اور آج کا حکومتی اتحاد کل کی پی ٹی آئی ہے۔
سلیم صافی کہتے ہیں کہ کل پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کے پیٹ میں سویلین بالادستی کا مروڑ اٹھ رہا تھا جبکہ آج عمران خان سویلین بالادستی کے علمبردار بن گئے ہیں۔ پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی مرکز اور سندھ میں حکمران ہیں تو عمران پنجاب، پختونخوا، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں ۔جبکہ بلوچستان کی حکومت بھی عمران خان کی بنائی ہوئی ہے۔ایسے میں جب دونوں ہی حکمران ہیں تو جھگڑا کس بات کا؟ لہٰذا اپنی انائوں کی خاطر ملک اور قوم کو دائو پر لگانے کی بجائے دونوں اطراف سے سنجیدہ لوگوں پر مشتمل کمیٹی بنائی جائے جو کہ مذاکرات کرے۔ ایک دوسرے کی پکڑ دھکڑ اور کیسز بنانے کا سلسلہ بند کیا جائے۔ عمران خان اسلام آباد پر یلغار کی کال واپس لیں اور باہمی اتفاق رائے سے آزادانہ الیکشن کے انعقاد کی طرف بڑھا جائے۔
سلیم صافی کہتے ہیں کہ بلاشبہ عمران خان نے اپنے دور اقتدار میں اپوزیشن رہنمائوں کے ساتھ نہ صرف بدترین انتقامی رویہ اپنائے رکھا بلکہ ان کی تضحیک اور توہین بھی کرتے رہے۔ یہاں تک کہ ایک دن جنرل قمرجاوید باجوہ سے فرمائش کی کہ وہ ساری اپوزیشن کو ان کے لئے جیل میں بند کردیں اور جب انہوں نے ایسا کرنے سے معذرت کی تو ناراض ہو گے۔عمران خان کی حکومت کو لانے اور چلانے کے لئے عدلیہ، میڈیا، احتساب اور الیکشن کمیشن کے ساتھ جو کھلواڑ کیا گیا بلکہ انسانیت کی جو تذلیل ہوتی رہی، اسے کوئی اور بھلانا چاہے تو بھلا سکتا ہے لیکن میں کبھی نہیں بھلا سکتا۔ کیونکہ میڈیا پرسنز میں جو غریب صحافی سب سے زیادہ عمران کے ذہن پر سوار تھا اور سوار ہے، وہ یہ عاجز ہی ہے۔ جتنی گالیاں مجھے، میرے خاندان اور میری ماں کو دی گئیں، اتنی شاید نواز شریف اور مریم نواز کو بھی نہیں دی گئیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس پولرائزڈ معاشرے کو جوڑنا ہے یا پھر مزید تقسیم پیدا کرنا ہے؟ اگر تو ملک اور قوم کی فکر کرنی ہے تو پھر کم ازکم حکمران جماعتوں اور مقتدر قوتوں کو انتقام کی نفسیات سے اپنے آپ کو نکالنا ہوگا۔
سلیم صافی کہتے ہیں کہ اس میں دو رائے نہیں کہ کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ بلاشبہ دھونس یا دھمکی کے ذریعے کسی کو ریاست یا حکومت سے بات منوانے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے لیکن ضد کے جواب میں ضد، گالی کے جواب میں گالی اور انتقام کے جواب میں انتقام بڑے دل والے حقیقی لیڈروں کا شیوہ نہیں۔ میرا عمران خان کے ساتھ امتیازی سلوک تب تک تھا جب تک وہ طاقتور تھے، مقتدر قوتیں انکی پشت پر تھیں اور لوگوں نے دوسرے لیڈروں کی طرح انکا حقیقی چہرہ نہیں دیکھا تھا۔ میں ناصحین دوستوں سے کہا کرتا تھا کہ صحافی کا کام کسی لیڈر یا گروہ کی حقیقت کو سامنے لانا ہے۔ اس کے بعد عوام کی مرضی ہے کہ اس کو چاہتے ہیں یا مخالفت کرتے ہیں، میری دانست میں دوسرے لیڈر جیسے تھے، ویسے نظر آرہے تھے لیکن عمران خان جیسے تھے، اس سے الٹ بنا کر خود کو پیش کررہے تھے۔جس دن ان کی حقیقت بھی دیگر سیاسی لیڈروں کی طرح سامنے آ جائے گی میرا کام ختم ہوجائے گا۔ دوسری وجہ اس امتیازی سلوک کی یہ تھی کہ میں انہیں کسی اور کا مہرہ سمجھ رہا تھا۔
سلیم صافی کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی فنڈنگ کیس، توشہ خانہ کیس اور جھوٹے سائفر سے متعلق آڈیو لیکس کے بعد عمران کے چہرے سے بڑی حد تک نقاب اتر گیا ہے۔ اس لئے اب میرا بھی ان کے ساتھ امتیازی سلوک وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہوتا جائے گا۔ اگر انکے خلاف قانون یا آئین کے مطابق کارروائی ہو گی تو میں ویلکم کروں گا لیکن اگر ان کے ساتھ زیادتی ہوگی یا پھر ان کی تضحیک کی جائے گی تو میں مذمت اور حسب استطاعت مزاحمت کروں گا۔عمران مجھے لفافی کہتے رہیں لیکن میں جواب میں انہیں صرف وہ ٹائٹل دوں گا جو کسی آئینی ادارے یا عدالت سے ثابت شدہ ہو۔
میں ان کا ناقد ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی اصلاح اور درازی عمر کے لئے دعا گو بھی ہوں۔ لیکن مجھ جیسا معمولی انسان اور صحافتی مزدور جسکی رگوں میں ایک قبائلی پختون کا خون دوڑ رہا ہے ، اگر اپنے انتقام پر ملک و قوم کی بھلائی کو ترجیح دے سکتا تو پھر قوم کی قیادت کے دعویدار قد آور سیاسی لیڈر ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟۔