چودھری سرور اور پرویز الٰہی کا پھڈا سنگین ہو گیا

اراکین اسمبلی استحقاق قانون پر سپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الٰہی اور گورنر چوہدری سرور کے مابین جاری لڑائی اب ایک کھلی جنگ کی صورت اختیار کر گئی ہے جو مستقبل قریب میں مقننہ اور انتظامیہ یعنی اسمبلی اور بیوروکریسی کی جنگ میں تبدیل ہونے جا رہی ہے۔
یاد رہے کہ سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہی کی زیر قیادت اراکین اسمبلی نے بیوروکریسی کو جواب دہ بنانے کے لیے اراکین اسمبلی استحقاق قانون پاس کر دیا ہے جس پر گورنر اور وزیر اعلی پنجاب کو شدید تحفظات ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان بھی اس معاملے پر چودھری سرور اور عثمان بزدار کے ساتھ ہیں اور پرویز الہی کو یہ قانون واپس لینے یا اس میں ترمیم کرنے پر مجبور کیے جانے کی اطلاعات ہیں۔ تاہم وہ اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ یاد رہے کہ جب پہلی مرتبہ استحقاق بل اسمبلی سے پاس کر کے گورنر پنجاب کو بھیجا گیا تو انہوں نے اس پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ چنانچہ پرویزالٰہی نے استحقاق بل کو دوبارہ پنجاب اسمبلی سے پاس کروا لیا جسکے بعد اسے گورنر پنجاب کی منظوری کی ضرورت نہ رہی اور وہ قانون بن گیا۔ یہ قانون پاس کرنے کے بعد چودھری پرویز الہی نے اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ آج کے بعد پنجاب کی بیورو کریسی اسمبلی اراکین کو جوابدہ ہوگی۔
تاہم اب وفاق کے نمائندے گورنر پنجاب بیوروکریسی کے تحفظات کی وجہ سے کوشش کر رہے ہیں کہ اس قانون کو یا تو واپس کروا دیا جائے یا اس میں ترمیم کی جائے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس چپقلش کو پرویز الہی اور چوہدری سرور کی لڑائی قرار دینا درست نہیں کیونکہ گورنر پنجاب نے یہ بل وزیراعظم عمران خان اور وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کے مشورے سے مسترد کیا تھا لہٰذا اس بل کی دوسری مرتبہ اسمبلی سے باقاعدہ منظوری گورنر کی نہیں بلکہ وزیراعظم کی شکست ہے جو اراکین اسمبلی کی بجائے بیوروکریسی کو طاقتور بنانے پر یقین رکھتے ہیں۔
لیکن اس قانون کی منظوری کے بعد پنجاب کے دو بڑوں میں اختلافات سنگین ہو گئے ہیں۔ یاد رہے کہ 29 جون کو بیوروکریسی کو اسمبلی کے تابع کرنے کے مقصد سے پاس کیا جانے والا صوبائی اسمبلی استحقاق ترمیمی بل 2021 گورنر پنجاب چودھری سرور نے اعتراضات لگا کر مسترد کر دیا تھا۔ گورنر نے استحقاق بل کو آئین کی دفعات 10-اے اور 66(3) سے متصادم ہونے کی وجہ سے پنجاب اسمبلی کو واپس بھجوایا تھا۔ اس بل میں ممبران اسمبلی کی بات نہ ماننے والے بیوروکریٹس اور انکے خلاف خبریں دینے والے صحافیوں کے لیے قید اور جرمانے کی سزائیں تجویز کی گئی تھیں۔ تاہم صحافی برادری کے احتجاج کے بعد ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے ان میڈیا سے متعلق شقوں کو خارج کردیا گیا تھا لیکن بیوروکریسی کے حوالے سے جرمانے اور سزاؤں کی شقیں برقرار رکھی گئی تھیں۔ بل کے تحت سرکاری محکموں کے آفیسرز اگر اسمبلی میں طلب کرنے کے باوجود نہ آئیں تو وہ قابل گرفت ہونگے۔ اگر کسی سرکاری محکمے کی طرف سے غلط جواب اسمبلی کو بھیجا گیا تو اسکے خلاف بھی قانونی کارروائی ہوگی۔ اسمبلی کے ملازمین کی ڈیوٹی کے دوران مداخلت کرنے پر بھی متعلقہ شخص کے خلاف کاروائی ہو گی۔ اس قانون کے تحت سپیکر ایک نوٹفیکیشن کے ذریعے کسی بھی شخص کی سزا کم یا بڑھا سکتا ہے۔ نئے قانون کے تحت اسمبلی کی جوڈیشل کمیٹی کو ایک دن کے اندر سزا دینے کے اختیارات حاصل ہونگے۔ اگر کسی رکن اسمبلی کا استحققاق مجروح ہوتا ہے تو سپیکر کے پاس اختیارات ہونگے کے وہ متعلقہ ڈسٹرکٹ آفیسر کو کہہ کر ملزم کو گرفتار کروا دیں۔ سپیکر کو یہ اختیارات بھی حاصل ہو گیا ہے کہ جوڈیشل کمیٹی میں کتنے ممبر رکھنے ہیں۔ یہ قانون منظور ہونے کے بعد اب بیوروکریسی ارکان اسمبلی کا استحقاق مجروح کرنے پر انہیں جوابدہ ہوگی۔
یاد رہے کہ اس قانون کا بل قاف لیگ کے رکن اسمبلی ساجد بھٹی نے پیش کیا تھا جسے تمام ارکان اسمبلی نے متفقہ طور پر منظور کیا۔ اس کی منظوری کے بعد اسپیکر چوہدری پرویز الٰہی کا کہنا تھا کہ اب کسی بیوروکریٹ کی یہ جرات نہیں ہوگی کہ وہ منتخب رکن اسمبلی کی بات نہ سُنے، اب پنجاب میں بیوروکریسی کی بدمعاشی نہیں چلنے دیں گے۔ پرویز الٰہی نے کہا کہ کوئی غلطی فہمی میں نہ رہے۔ ہم جس بیوروکریسی کی منتیں کرتے رہے وہ ہمارے ہی برتن توڑتی رہی۔ انہون نے کہا حالات یہ ہیں کہ ایک بیوروکریٹ اٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ میں کسی کو جواب دہ نہیں، لیکن اب تحفظ استحقاق قانون منظور ہونے کے بعد بیوروکریسی بھی جواب دہ ہوگی اور پنجاب حکومت کو بھی کام کرکے دکھانا ہوگا۔
تاہم دوسری جانب گورنر اور وزیر اعلی پنجاب دونوں وفاقی حکومت کے ایما پر استحقاق قانون کو واپس دلوانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ پنجاب کی طاقتور بیوروکریسی کے تحفظات کو دور کیا جاسکے۔ ان کا موقف ہے کہ بیورکریسی پہلے ہی نیب اور عدالتی کارروائیوں کے خوف سے ان کے ساتھ تعاون نہیں کرتی اور پنجاب اسمبلی سے استحقاق بل کی منظوری کے بعد بیورکریٹس اس خوف میں مبتلا ہو گے ہیں کہ انہوں نے ممبران اسمبلی کی بات نہ مانی تو انہیں سزا دلوا دی جائے گی۔ بعض ناقدین کا ماننا ہے کہ یہ قانون منظور کرواکر چوہدری پرویز الہیٰ نے بیورکرسی کو اپنے تابع کرنے کی کوشش کی ہے جس پر صوبے کے چیف ایگزیکٹو یعنی وزیراعلیٰ اور آئینی سربراہ گورنر کی تشویش بجا ہے یہی وجہ ہے کہ آپسی اختلافات کو بھلا کر گورنر اور وزیراعلی پنجاب اس بل کے حوالے سے ایک پیج پر ہیں۔ تاہم چوہدری پرویز الہی نے بل واپس لینے یا اس میں ترمیم کرنے کے لئے دبائو ڈالنے کی صورت میں حکومتی اتحاد چھوڑنے کی دھمکی دے کر حکومت کو پریشان کر دیا ہے۔
اس معاملے پر وفاق اور گورنر پنجاب کو اپنے تحفظات سے آگاہ کرتے ہوئے پنجاب کے سینئر گروپ بیوروکریٹس نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ اس قانون کے ذریعے بیورو کریسی یعنی ملکی، صوبائی، ضلعی انتظامیہ اور دوسرے افسران کو پنجاب اسمبلی کے منتخب ارکان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ منتخب ارکان کی زبان سے جو نکل گیا وہ قانون کا درجہ پا گیا۔ انکا کہنا ہے کہ سرکاری افسر ریاست سے وفاداری کا حلف اٹھاتے ہیں نہ کہ افراد سے وفاداری کا اور یہی جناح کا فرمان بھی ہے۔ مگر اس نئے قانون کے ذریعے انتظامیہ کو منتخب ارکان کا وفادار بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ قانونی ماہرین کے نزدیک اس قانون کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ مقننہ، یعنی منتخب ارکان کو سزا دینے کا اختیار دیکر عدلیہ کے متوازی لا کھڑا کیا گیا ہے، زبانی حکم کی اطاعت لازمی قرار دیکر قوانین اور قواعد کو پس پشت ڈال دیا گیا اور منتخب ارکان کو ہی متوازی حکومت بنا دیا گیا۔
گورنر پنجاب چودھری سرور نے اس قانون کی توثیق سے اگر چہ انکار کیا، مگر اس کے باوجود قانون آئین کی رو سے دوبارہ منظور کر لیا گیا۔ مبصرین کے خیال میں ضروری تھا کہ پنجاب اسمبلی گورنر کے اعتراضات کا جائزہ لیتی مگر ان کے اعتراض کو بھی تسلیم نہیں کیا گیا اور جلد بازی میں ایک ایسا قانون منظور کر لیا گیا جو ریاستی بنیاد کو کمزور کرے گا۔ آئین کے تحت گورنر کا کردار اس قانون کے حوالے سے ختم ہو چکا، اب اس الجھی ڈور کو سلجھانے کے لئے صرف سپیکر چودھری پرویز الٰہی بطور کسٹوڈین اسمبلی اس قانون کا از خود جائزہ لے کر اس میں ترامیم کراسکتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ استحقاق قانون کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔