عمران، فرح خان اور بشریٰ کا ملک ریاض کنکشن کیا ہے؟

سابق وزیراعظم عمران خان کھلے عام اربوں کی کرپشن کے الزامات کا سامنا کرنے والی بشریٰ بی بی کی سہیلی فرح خان کا مسلسل دفاع کرنے پر عوامی تنقید کی زد میں آگئے ہیں۔ فرح خان اصل میں بشری ٰبی بی کے پہلے شوہر خاور فرید مانیکا کے بہترین دوست احسن جمیل گجر کی دوسری اہلیہ ہیں جو کرپشن الزامات سامنے آنے کے بعد دبئی فرار ہو گئی تھیں۔ اب نیب نے انکے خلاف کیسز کھول کر انکوائری شروع کر دی ہے۔
تاہم عمران خان تب سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے شدید تنقید کی زد میں آگئے جب یکم مئی کو ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے فرح خان کا دفاع کرنے کی ناکام کوشش کی۔ فرح خان کا اصلی نام فرحت شہزادی ہے اور انہیں فرح گجر اور فرح گوگی کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ماضی میں ان کا تعلق ایک غریب خاندان سے تھا جس نے لاہور آنے کے بعد چھوٹے پیمانے پر مال سپلائی کا کام شروع کیا جو چل پڑا اور یوں وہ ڈیفنس لاہور کی مشہور سوشل بٹر فلائی بن گئیں۔ فرح کی بشریٰ عرف پنکی پیرنی سے دوستی بھی اسی زمانے کی ہے اور وہ بھی ایک زمانے میں لاہور کے ایلیٹ سرکلز میں کافی مشہور تھیں۔ تاہم عمران نے فرح کے خلاف نیب کیس دائر ہونے کے بعد ان کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ وہ بے قصور ہیں اور ان کا ایک ہی قصور ہے کہ وہ بشریٰ بی بی کی دوست ہیں۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ فرح کے خلاف نیب کیسز سیاسی انتقام کے سوا کچھ نہیں۔ فرح خان کا دفاع کرتے ہوئے عمران خان اس حد تک چلے گئے کہ انہوں نے انکے نیب کیس کا تقابل 90 کی دہائی میں اپنی سابقہ اہلیہ جمائما خان کیخلاف بننے والے ٹائل سمگلنگ کیس سے کر دیا۔ انکا کہنا تھا کہ جمائما کے خلاف کیس کا مقصد بھی مجھے ہٹ کرنا تھا اور اب بھی جب حکومت کو میرے خلاف کرپشن کا کوئی ثبوت نہیں ملا، تو فرح خان کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔
عمران خان کی یہ پریس کانفرنس معمول سے ہٹ کر تھی۔ ماضی میں وہ متعدد مواقع پر مختلف کرپشن معاملات کے ساتھ نتھی کیے جاتے رہے ہیں لیکن انہوں نے کبھی پریس کانفرنس کر کے کسی بات کا جواب، یا کسی کی صفائی نہیں دی۔ جہانگیر ترین، زلفی بخاری، علیم خان، یہاں تک کہ خود عمران خان کی بہن علیمہ خان پر بھی کرپشن سے جائیدادیں بنانے کے الزامات لگے تو انہوں نے خود سامنے آ کر کبھی ان کا دفاع نہیں کیا۔ لیکن فرح خان کا معاملہ مختلف رہا کیونکہ عمران خان نے کھلے عام اس کا دفاع کیا۔ وجہ یہ ہے کہ فرح خان کا نام روزِ اول ہی سے عمران کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے ساتھ لیا جاتا رہا ہے۔ چاہے پنجاب میں عثمان بزدار کی وزارتِ اعلیٰ کی بات ہو یا آزاد کشمیر کے سابق وزیر اعظم کی، ایسی رپورٹس بار بار منظر پر آتی رہی ہیں کہ فرح خان نے ہی یہ نام بشریٰ بی بی کے ذریعے عمران تک پہنچائے اور عمران نے ان کی نامزدگی کی۔ فرح کے شوہر احسن جمیل گجر کا کہنا ہے کہ وہ یا ان کی اہلیہ ایسی کسی پوزیشن میں ہی نہیں تھے کہ وہ سفارشیں کر کے بھرتیاں، پوسٹنگز اور ٹرانسفرز کرواتے۔ لیکن سابق گورنر پنجاب چوہدری سرور اور سابق سینئر وزیر پنجاب علیم خان بھی ان الزامات کی تصدیق کر چکے ہیں جن کے بعد نیب نے بھی انکوائری شروع کر دی ہے۔
یاد رہے کہ فرح خان عموما ًعمران کی بنی گالہ رہائش گاہ میں بشریٰ بی بی کے ساتھ ہی قیام پذیر ہوتی تھیں۔ ان کی خان صاحب کے کتوں کے ساتھ بنوائی گئی تصاویر بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہیں۔ عمران نے فرح کے دفاع میں پریس کانفرنس میں یہ بھی کہا کہ ان پر نیب کی جانب سے کیس بنایا گیا ہے کہ ان کے اثاثے ان کی آمدن سے زیادہ ہیں لیکن یہ کیس صرف پبلک آفس ہولڈرز پر بن سکتا ہے جبکہ فرح کے پاس کوئی عوامی عہدہ نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ فرح خان ایک امیر خاتون ہیں جو رئیل اسٹیٹ پراپرٹی کا بزنس کرتی تھیں لہٰذا اگر پچھلے برسوں میں ان کے اثاثوں میں اضافہ ہوا ہے تو اس کی بنیادی وجہ پراپرٹی بزنس کا بہتر ہونا ہے۔ لیکن خود فرح کی جانب سے ایسا کوئی دفاع سامنے نہیں آیا۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ عمران کو فرح کا اتنا جی دار دفاع کرنے کی ضرورت کیوں پیش آ رہی ہے، اس حوالے سے کچھ مزید اطلاعات بھی ہیں اور یہ بہت ہی تگڑے کاغذات کی بنیاد پر ہیں۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق 2019 میں تب کے وزیر اعظم عمران خان نے القادر یونیورسٹی کے نام سے ایک پروجیکٹ لانچ کیا تھا جہاں تصوف اور سائنس پر تحقیق کی جانا تھی۔ اس مقصد کے لئے 469 کنال زمین حاصل کی گئی اور یہ زمین کسی اور نے نہیں بلکہ ملک ریاض نے دی۔ یہ زمین ملک ریاض کی جانب سے القادر ٹرسٹ کو دی گئی جس کے ٹرسٹیوں میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کے علاوہ زلفی بخاری اور بابر اعوان شامل تھے۔ بعد ازاں بابر اعوان اور زلفی بخاری کو اس ٹرسٹ میں سے نکال دیا گیا اور فرح خان اور ڈاکٹر عارف بٹ اس ٹرسٹ کے بورڈ ممبرز بن گئے جس کے نام ملک ریاض نے 469 کنال زمین عطیہ کی تھی۔ یعنی صادق اور امین ہونے کے دعویدار عمران کو بحریہ ٹائون کے کھرب پتی مالک ملک ریاض حسین نے وزارت عظمیٰ کے دوران اسلام آباد میں ساڑھے چار سو کنال سے زائد اربوں روپے مالیت کی زمین عطیہ کر دی اور موصوف نے وصول بھی کر لی۔ یونیورسٹی صرف چند کنال اراضی پر بنائی گئی ہے جس میں صرف 37 طالب علم زیر تعلیم ہیں اور اسے ابھی تک ہائر ایجوکیشن کمیشن نے بھی تسلیم نہیں کیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹرسٹ کو عطیہ کی گئی زمین کو وصول کرنے کے معاہدے پر دستخط مسز بشریٰ خان اور بحریہ ٹائون نے کیے جبکہ اس ٹرسٹ کے چیئرمین عمران تب وزیر اعظم تھے۔ اسی دوران سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کی دیرینہ دوست فرح خان کو بنی گالہ کے قریب بحریہ ٹاؤن کے ملک ریاض کی جانب سے سے 400 کنال سے زائد زمین ٹرانسفر کی گئی۔ الزام لگایا جارہا ہے کہ یہ زمین دراصل عمران اور ان کی اہلیہ کو دی گئی لیکن فرح خان کے نام پر ٹرانسفر کی گئی۔
فرح خان کو ٹرانسفر کی گئی اربوں روپے مالیت کی زمین کی دستاویزات بھی سامنے آ گئی ہیں جن کے مطابق ملک ریاض کے بیٹے علی ریاض ملک نے زمین فرح خان کے نام منتقل کی۔ دستاویزات کے مطابق فرح کو سب سے پہلے موہڑہ نور اسلام آباد میں 200 کنال اور 6 مرلے منتقل ہوئے۔ اسکے بعد اسے 100 کنال ایک مرلہ اور 100 کنال 5 مرلہ کی دو مزید زمینیں ٹرانسفر کی گئیں۔ پہلی منتقلی 10 مارچ 2021 کو جبکہ دوسری منتقلی 26 اگست 2021 کو ہوئی۔
یاد رہے کہ ملک ریاض ان کاروباری حضرات میں سے ہیں جنہیں حکومتیں بنانے اور گرانے کے عمل میں بھی شاملِ حال رکھا جاتا ہے۔ ان کے ساتھ پیپلز پارٹی ہو، ن لیگ یا تحریکِ انصاف، کسی جماعت کا ان پر بس نہیں چلتا۔ تمام جماعتوں سے ہی یہ مراعات لیتے رہے ہیں۔ تمام مراعات کی تفصیل تو یہاں دینا ممکن نہیں لیکن عمران دورِ میں ان کو جو دو بڑے فائدے حکومت کی طرف سے دیئے گئے، ان میں سے ایک تو 2018 میں انکے خلاف سپریم کورٹ کی جانب سے بحریہ ٹاؤن کراچی پر دیئے گئے فیصلے کے حوالے سے ہے جس کے مطابق ملک ریاض کو 460 ارب روپے کا جرمانہ کیا گیا تھا۔ یہ رقم انہوں نے 2026 تک مختلف قسطوں میں واپس کرنا تھی۔ لیکن مئی 2021 میں اٹارنی جنرل کی جانب سے عمران خان کی ہدایت پر سپریم کورٹ کو ایک خط لکھا گیا جس میں استدعا کی گئی تھی کہ ان سے قسطوں میں رقم نہ لی جائے بلکہ یہ رقم بعد ازاں یک مشت لے لی جائے تاکہ وہ مزید کاروبار کو وسعت دیتے رہیں اور اس رقم کو کاروبار میں لگا کر اس سے سود حاصل کیا جاتا رہے اور سات سال میں وہ رقم سپریم کورٹ کو مکمل یک مشت واپس کر دیں گے۔ دوسرا فائدہ ملک ریاض کو یہ دیا گیا ہے کہ برطانیہ میں منی لانڈرنگ کرتے پکڑے جانے کے بعد انہوں نے وہاں کی نیشنل کرائم ایجنسی کے ساتھ ایک عدالت سے باہر معاہدہ کیا جس کے تحت انہوں نے ایک عدد گھر جو ان کی ملکیت تھا، نیشنل کرائم ایجنسی کو دیا اور اس سے حاصل ہونے والی رقم جو پاکستانی 39 ارب روپے بنتی تھی، حکومتِ پاکستان کو واپس کی گئی لیکن یہ رقم ریاستی خزانے کی بجائے سپریم کورٹ کے ایک بینک اکاؤنٹ میں داخل کر دی گئی اور ملک ریاض نے دعویٰ کیا کہ یہ رقم اسی 460 ارب روپے کے جرمانے کی قسط کے طور پر جمع کروائی گئی ہے۔ ملک ریاض کے اس دعوے کی حکومت نے کبھی تردید نہیں کی۔ اس وقت کے مشیر احتساب شہز اداکبر نے تصدیق کی کہ یہ رقم سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں ڈالی گئی ہے اور مزید کوئی تفصیل دینے سے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ برطانوی ادارے کے ساتھ ہوئے معاہدے کے تحت وہ اس ڈیل کی مزید تفصیلات دینے سے قاصر ہیں۔ لہٰذا ملک ریاض کی جانب سے یونیورسٹی کے لئے 469 کنال زمین دی جانا، اور ایک ایسے ٹرسٹ کو جس میں عمران خان، بشریٰ بی بی اور فرح خان تینوں موجود ہیں، بہت سے سوالات کھڑے کرتا ہے جن کے جواب عمران خان کو دینا ہوں گے۔