کچے کے بے لگام ڈاکو لوگوں کو ماموں بنا کر کیسے اغوا کرتے ہیں؟

کچے کے بے لگام ڈاکو معصوم عوام کو ماموں بنانے کے لیے مختلف طریقے اپناتے ہیں تاکہ انہیں اغوا کیا جا سکے، یوں مغوی خود ہی شکار بن کر ان کے پاس چلے آتے ہیں، بنیادی طور پر شاطر ڈاکو نوجوان لڑکوں کو اپنی ساتھی لڑکیوں سے طویل فون کالز کروارے ہیں، جو انہیں ملاقات کیلئے مقررہ مقام پر بلاتی ہیں جہاں سے انہیں اغوا کر لیا جاتا ہے۔ اسکے بعد بھاری تاوان کی ادائیگی پر ہی ان کی جان چھوٹتی ہے۔

اب ہم ایسے ہی ایک واقعے کی منظر کشی کرتے ہیں۔ ساجد علی کے موبائل کی گھنٹی بجتی ہے۔ دوسری جانب سے زنانہ آواز میں بات کا آغاز ہوتا ہے اور یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ جیسے یہ رانگ نمبر ہے اور غلطی سے مل گیا ہے۔ بعد میں اسی نمبر سے روزانہ کالز آنے لگتا ہیں اور گھنٹوں بات چیت ہونے لگتی ہے، چندہ ہفتوں میں اس رومانوی کہانی تب نیا رخ اختیار کرتی ہے جب ساجد کو اسکے کزن کے ساتھ اغوا کر لیا جاتا ہے، شمالی سندھ بالخصوص گھوٹکی، شکارپور اور کشمور کندھ کوٹ میں خواتین کی آواز میں فون کالز اور سوشل میڈیا کے ذریعے اغوا کی وارداتوں کا رجحان عام ہو چکا ہے، اب ڈاکو اغوا کی وارداتیں نہیں کرتے بلکہ مغوی خود ڈاکوؤں کے پاس اغوا ہونے کے لیے پہنچ جاتا ہے۔ میرپور ماتھیلو میں ساجد علی سے جب ملاقات ہوئی تو وہ نویں جماعت کا امتحان دے کر واپس آئے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ ان کا چند ماہ پہلے مومل نامی لڑکی سے فون پر رابطہ ہوا تھا، چند ماہ تک بات چیت کا سلسلہ جاری رہا، پھر اس نے کہا کہ ’ہم تو اب ایک کنبہ ہیں ہمیں اب ملاقات کرنی چاہئے، لہٰذا رانوتی ( کچے کا علاقہ) میں آ جاؤ، وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے اکیلے جانے کے بجائے اپنے کزن کو ساتھ چلنے کو کہا۔ ’جب ہم متعلقہ جگہ پر پہنچے تو وہاں موٹر سائیکل پر سوار ایک بندہ آیا جس نے کہا کہ مجھے مومل نے بھیجا ہے، میرے پیچھے پیچھے آجاؤ۔ جب وہ پکے سے کچے کے حفاظتی بند پر پہنچے تو وہاں چار لوگ اور آگئے جن کے پاس کلاشنکوف تھیں۔ انھوں نے پہلے تو ہمیں مارا پیٹا اور پھر اغوا کر لیا۔

ایس ایچ او انسپکٹر عبدالشکور لاکھو بتاے ہیں کہ ’فون پر بات کرنے کے لیے ڈاکوؤں نے ایسی خواتین بھی رکھی ہوئی ہیں جو لوگوں کے ساتھ رابطہ کرتی ہیں اور کسی نہ کسی طرح سے لوگوں کو یہاں آنے کے لیے آمادہ کر لیتی ہیں۔ پولیس کے مطابق ڈاکوؤں کے ’ہنی ٹریپ‘ کا شکار بننے والے افراد اپنی گاڑی، مسافر کوچ یا ہائی ایس میں آتے ہیں، پھر ڈاکوؤں کا سہولت کار ان کو موٹر سائیکل پر لینے پہنچ جاتا ہے اور انھیں بتاتا ہے کہ ’میڈم نے بھیجا ہے۔ وہ انتظار کر رہی ہیں۔انسپکٹر عبدالشکور لاکھو بتاتے ہیں ڈاکو جن لوگوں کو بلاتے ہیں وہ زیادہ تر ’سندھی نیوز چینل یا خبریں نہیں سنتے۔ انھیں یہ گاڑیوں کا جھانسہ دیتے ہیں، ٹرالر، ٹرک، ٹریکٹر، مال مویشی کی خرید و فروخت کا لالچ دیتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ زمین بنانے کیلئے کرین مشین درکار ہے، لکڑی کاٹنے کے لیے لیبر چاہئے، شادی میں ڈھولکی والا چاہئے۔شمالی سندھ میں اغوا برائے تاوان ایک صنعت بنی چکی ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ پانچ ماہ میں شمالی سندھ میں 250 افراد کو اغوا کیا گیا ہے۔سندھ پولیس کے پاس ڈاکوؤں سے لڑائی کے لیے جی تھری اور کلاشنکوف جیسے ہتھیار موجود ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں ڈاکوؤں کے پاس 12.7 ایم ایم طیارہ شکن بندوقیں موجود ہیں۔بعض ماہرین کہتے ہیں کہ کچے میں معاشی اقتصادی ترقی لائی جائے اور یہاں سرکاری ہسپتال اور سکول قائم کیے جائیں تو جرائم پر قابو پایا جا سکتا ہے تاہم ایس ایس پی گھوٹکی تنویر تنیو کہتے ہیں کہ ایسا ممکن نہیں ہے کیونکہ ایک تو یہ زمین سرکاری ہے دوسرا یہ کہ جب بھی دریا کا بہاؤ بڑھے گا انفراسٹرکچر ڈوب جائے گا۔پولیس کے مطابق دریائے سندھ کے حفاظتی بندوں پر گڈو بیراج سے لے کر سکھر بیراج تک 200 سے زائد پولیس پوسٹیں تعمیر کی جائیں گی۔ گھوٹکی میں 100 سے زائد چیک پوسٹس زیر تعمیر ہیں، پولیس کے منصوبے کے تحت کچے میں دو پولیس لائنز بن رہی ہیں۔کچے میں بنائی جانے والی چیک پوسٹوں کے لیے پولیس کا ایک خصوصی یونٹ بنانے کی بھی تجویز ہے اگر ہم نے صرف نقل و حرکت کو کنٹرول کیا تو جرائم کی شرح میں واضح کمی ہوگی۔ آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے سندھ کے کچے میں آپریشن کے لیے فوج اور رینجرز کی بھی مدد مانگی تھی تاہم دو ماہ گزرنے کے باوجود اس کی فراہمی نہیں ہوسکی اور نہ ہی اس کچے کے علاقے میں مشترکہ آپریشن ہوسکا ہے۔

Back to top button