کیا عمران مسائل کے بوجھ تلے دب کر فارغ ہونے والے ہیں؟

معروف صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ اپوزیشن سے مخاصمت اور اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات میں سرد مہری آ جانے کہ بعد وزیر اعظم عمران خان کے مسائل سنگین ہو چکے ہیں اور انکے لیے موجودہ بحران سے نکلنا مشکل نظر آتا ہے. اگر مسائل کے بڑھنے اور گھمبیر تر ہونے کی یہی رفتار رہی تو وہ وقت دور نہیں جب عمران خان ان مسئلوں کے بوجھ تلے دب کر فارغ ہو جائیں گے۔
اپنے خصوصی سیاسی تجزیے میں سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ کھیل کا میدان ہو یا سیاست کا کارزار، وزیراعظم عمران خان Man of Crisis رہے ہیں۔ اب کچھ عرصے سے وزیراعظم کو پھر سے نئے بحرانوں اور چیلنجز کا سامنا ہے۔ اپوزیشن اور حکومت کے تعلقات میں تناؤ تو پہلے سے موجود ہے لیکن الیکٹرانک ووٹنگ ایکٹ اس تنازع کو پھر سے ہوا دے رہا ہے۔ نیب آرڈیننس کے حوالے سے ابھی گرد بیٹھی نہیں کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات میں بھی سردمہری آنے لگی ہے۔ ریاست کے چوتھے ستون میڈیا سے موجودہ حکومت کے خراب تعلقات اور آئے روز مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر نت نئی پابندیاں حالات کو خراب کرنے کی ایک بڑی وجہ بن رہی ہیں۔ کپتان حکومت کی جانب سے چینی، آٹا، سیمنٹ، سگریٹ اور شوگر مافیاز کے خلاف لمبی لمبی چارج شیٹ پیش کی گئیں لیکن انکے خلاف ایکشن صفر رہا حالانکہ یہی سب مافیا ملک میں مہنگائی کو فروغ دے رہے ہیں۔ خوفناک مہنگائی کا یہ عالم ہے کہ عام آدمی بالخصوص تنخواہ دار طبقے کا جینا مشکل ہو چکا ہے۔ اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں آئے روز اضافہ ناقابل برداشت ہوتا جا رہا ہے۔ پیٹرولیم کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ تو عالمی نرخوں میں اضافہ بتایا جاتا ہے لیکن آٹا، چینی، دالیں اور سبزیاں تو مقامی منڈیوں سے آتے ہیں، ان کی قیمتوں کو آگ لگنا عوام کی سمجھ سے باہر ہے اور اسے حکومت کی ایک بڑی ناکامی قرار دیا جا رہا ہے۔
بقول سہیل وڑائچ، اندرونی حالات کے گمبھیر ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے خارجہ معاملات بھی خراب سے خراب تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ پاکستان کے آہنی ہمسائے چین کے ساتھ کئے گئے سی پیک معاہدے سست روی کا شکار ہیں اور صاف نظر آ رہا ہے کہ چین ان وعدہ خلافیوں پر پاکستان سے ناراض ہے۔ دوسری طرف مغربی دنیا سے ہمارے تعلقات بھی شکوک و شبہات کا شکار نظر آ رہے ہیں۔ امریکا، افغان مسئلے پر پاکستان کی طرف سے طالبان کی حمایت پر شاکی نظر آتا ہے، ایک اور بڑی خرابی آئی ایم ایف کے مالی پروگرام کے حوالے سے ملک پر بڑھتا ہوا دبائو ہے۔ دراصل یہ معاہدے سیاسی ہوتے ہیں اور جب تک امریکا اور یورپ کی حمایت حاصل نہ ہو، ان معاہدوں کی تکمیل مشکل ہوتی ہے۔ آئی ایم ایف سے معاہدے میں تاخیر ہی کی وجہ سے پاکستان میں ڈالر کی اڑان اونچی سے اونچی ہوتی چلی رہی ہے بلکہ روپیہ تیزی سے گر رہا ہے۔ ان عالمی چیلنجز کا بہتر حکمت عملی اپنائے بغیر مقابلہ نہیں کیا جا سکتا لیکن ہمارے بہت سے اندرونی چیلنجز کی بڑی وجہ حکومتی سطح پر غلط فیصلہ سازی ہے، جیسے وزارت خزانہ کی پہلی ٹیم ناقص تھی اور پھر اس ٹیم نے آئی ایم ایف سے مذاکرات میں اس قدر تاخیر کی کہ ڈالر کا ریٹ شوٹ کر گیا۔ آٹا اور چینی کا بحران سراسر ناقص منصوبہ بندی اور بدانتظامی کا نتیجہ ہیں۔ ایک طرف مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کر رکھا ہے، تو دوسری طرف بدانتظامی معاملات کو خراب کر رہی ہے۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ اور عمران حکومت تین سال تک مسلسل ایک صفحے پر رہے لیکن اب جب داخلی اور خارجی بحران زوروں پر ہے، ان تعلقات میں ابتری کا بے سرا راگ چھیڑنے سے سوائے سیاسی ابتری کے کچھ نہیں نکلے گا۔ پاکستان اپنی جغرافیائی پوزیشن کی وجہ سے عالمی فوکس میں ہے۔ افغانستان میں اگر خانہ جنگی ہوتی ہے تو ہم پھر سے ماضی کی طرح ’’ڈومور‘‘ کے مطالبے کی زد میں آئیں گے۔ دوسری طرف طالبان ہم سے امداد کی توقع کریں گے۔ یوں پاکستان چکی کے دو پاٹوں میں پس کر رہ جائے گا۔ عمران خان ماضی میں بھی بحرانوں سے نکلتے رہے ہیں لیکن تب انہیں اسٹیبلشمنٹ کی مکمل سپورٹ حاصل تھی۔ اب بڑا مسئلہ بہت سے بحرانوں کا حل نہ ہونا ہے بلکہ انہیں حکومت کی جانب سے بغیر حل کیے چھوڑنا ہے۔ چنانچہ اپوزیشن سے تعلقات کار کا معاملہ ہو، مہنگائی کا مسئلہ ہو یا حکومتی معاشی ٹیم کو بہتر کرنے کا ایشو ہو، عمران خان کو یہ تمام مسئلے حل کرنے ہوں گے کیونکہ یہ صرف اور صرف انکی ذمہ داری ہے، کسی اور کی نہیں۔ لیکن اگر مسائل کے بڑھنے اور گھمبیر تر ہونے کی یہی رفتار رہی تو وہ وقت دور نہیں جب عمران خان ان مسئلوں کے بوجھ تلے دب کر فارغ ہو جائیں گے۔