کیا ’ہائبرڈ‘ کے بعد ’پراکسی‘ حکومت کا فوجی تجربہ بھی ناکام ہو گا؟


سینئر صحافی اور تجزیہ کار زاہد حسین نے کہا ہے کہ پاکستان میں عمران خان کی سربراہی میں ہائبرڈ نظام حکومت چلانے کا عسکری تجربہ ناکام ہوجانے کے بعد اب وزیراعظم شہباز شریف کی زیر قیادت ایک پراکسی حکومت چلانے کا تجربہ کیا جا رہا ہے جو دوبارہ ناکامی سے دوچار ہوگا۔ روزنامہ ڈان کے لئے اپنے سیاسی تجزیے میں زاہد حسین کہتے ہیں کہ عمران خان کی جگہ لینے والے وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنی حکومت کی بے اختیاری مسلسل لندن کے دوروں سے ظاہر کردی ہے جہاں وہ اپنے بڑے بھائی سے ہر اہم فیصلے کی منظوری لینے پہنچ جاتے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ بیرونِ ملک سے چلنے والی حکومت نے ملک میں موجود طاقت کے خلا کو مزید وسیع کردیا ہے۔ مخلوط حکومت بھی اس حوالے سے الجھاؤ کا شکار نظر آرہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارے بے اختیار وزیرِاعظم کے پاس ملک کو درپیش بحرانوں سے نمٹنے کی صلاحیت بھی نہیں ہے جو کہ ایک ناخوشگوار صورتحال ہے۔

زاہد حسین کا کہنا ہے کہ ریموٹ کنٹرول کے ذریعے چلنے والے اس سیاسی نظام کی حیثیت مجروح تر ہوتی جا رہی ہے۔ شہباز شریف کا مصر سے واپسی پر اچانک لندن کا رخ کر لینا سب کے لیے حیران کن تھا خصوصاً جب ملک سنگین سیاسی بحران کا شکار ہے، وزیرِاعظم نے خود ساختہ جلاوطنی اختیار کیے ہوئے نواز شریف سے اہم پالیسی معاملات پر مشاورت میں کئی دن گزار دیے۔ سب سے اہم معاملہ جو لندن کی بیٹھک میں زیرِ بحث رہا، وہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی کا تھا۔ یہ ملکی سلامتی سے متعلق ایک حساس معاملہ ہے جسے میرٹ کی بنیاد پر نمٹایا جانا چاہیے لیکن اس مشاورت نے اسے مزید سیاسی بنا دیا ہے۔

سابق وزیراعظم عمران خان کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے زاہد حسین کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کے کچھ رہنماؤں کے حالیہ بیانات نے ایک بار پھر ان شکوک کو ہوا دی ہے کہ جماعت من پسند شخص کو اس اہم ترین عہدے پر تعینات کرنا چاہتی ہے۔ اگرچہ وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے لندن میں آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے مشاورت کی تردید کی ہے لیکن وزیرِاعظم کا لندن میں طویل قیام اور بات چیت سے تو الگ ہی تاثر ملا۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کی جانب سے دیے جانے والے متضاد بیانات سے حکومت کی ساکھ کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ ان حالیہ واقعات نے تحریک انصاف کے اس بیانیے کو مضبوط کیا ہے جس میں وہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے حکومت کے ارادوں پر سوالیہ نشان اٹھاتے ہیں۔ فریقین کو اس بات کا احساس نہیں کہ آرمی چیف کی تعیناتی کے معاملے کو سیاسی بنا دینے سے ادارے کو کس حد تک نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس سے زیادہ بُرا اور کیا ہوسکتا ہے کہ اس حساس عہدے پر تقرری سے متعلق میڈیا پر آئے روز بحث کی جاتی ہے۔ لیکن زاہدحسین یہ بتانا بھول گئے کہ نئے آرمی چیف کی تقرری کو متنازع بنانے والا مرکزی کردار عمران خان ہے۔

زاہد حسین کہتے ہیں کہ دونوں ہی فریقین اس تنازعہ سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ لیکن اس معاملے میں حکمران جماعت کو زیادہ محتاط ہونا چاہیے۔ مسلم لیگ (ن) کے کچھ رہنما یہ جانے بغیر کہ اس سے ان کی اپنی حکومت ہی کمزور ہوگی، جان بوجھ کر لندن ملاقات کا بار بار ذکر رہے ہیں تاکہ یہ بتایا جاسکے کہ نواز شریف اب بھی بااختیار ہیں۔ شاید شریف خاندان کی اندرونی سیاسی کشمکش بھی وہ وجہ ہوسکتی ہے جو نواز شریف کو ملکی فیصلہ سازی میں اپنا کردار ادا کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ وزیرِاعظم، مسلم لیگ (ن) کے سربراہ سے مشاورت کے سلسلے میں لندن گئے۔ وزیرِاعظم کا عہدہ سنبھالتے ہی وہ سینئر پارٹی رہنماؤں کے ساتھ لندن روانہ ہوگئے تھے۔ یہ اس بات کا واضح اشارہ تھا کہ سیاسی فیصلہ سازی کے اختیارات وزیرِاعظم شہباز شریف کے پاس نہیں بلکہ نواز شریف کے پاس ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکیج کی بحالی کے فوری بعد ہی وزیرِ خزانہ کو تبدیل کردیا گیا اور معاشی زار کے طور پر اسحٰق ڈار کی واپسی ہوئی۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں تھی کہ انہیں نواز شریف کی ہدایت پر کابینہ کا یہ اہم قلمدان سونپا گیا۔ اسحٰق ڈار کی واپسی سے شہباز شریف کے اختیارات کا معاملہ ایک بار پھر زیرِ بحث آیا۔ متوقع طور پر نئے وزیرِ خزانہ نے اپنے سابق ہم منصب کے کئی معاشی اور مالی فیصلوں کو تبدیل کردیا ہے۔ اسحٰق ڈار نے روپے کی قدر میں اضافہ اور مہنگائی کم کرنے کا وعدہ کیا لیکن ان کی جادو کی چھڑی نے کچھ خاص جادو نہیں دکھایا۔ اس کے بجائے ایک بار پھر ملک پر ڈیفالٹ ہونے کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ ان معاشی حالات میں حکمتِ عملی میں کسی بھی طرح کی تبدیلی آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکیج کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ چین اور سعودی عرب سے ملنے والی اربوں ڈالر کی مالی امداد سے متعلق غیر مصدقہ دعوؤں نے خود وزیرِ خزانہ کی ساکھ کو نقصان پہنچا یاہے۔

زاہد حسین کہتے ہیں کہ اگر پاکستان آئی ایم ایف معاہدے سے پیچھے ہٹتا ہے تو دیگر مالیاتی اداروں کی جانب سے بھی امداد کا راستہ بند ہوسکتا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ ان تمام مسائل میں پھنسی ہوئی حکومت کے لیے مشکل ہے کہ مہنگائی پر توجہ دے کیونکہ وزیرِاعظم اپنا زیادہ تر وقت بیرونِ ملک گزارتے ہیں۔مخلوط حکومت کا اقتدار صرف دارالحکومت تک ہی محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ معاملات کو کنٹرول کرنا اس کے لیے بہت ہی مشکل ہے۔

زاہد حسین کا کہنا ہے کہ سابق وزیرِاعظم عمران خان کے حامیوں کی اسلام آباد تک مارچ کی دھمکی نے مخلوط حکومت کو جیسے سکتے میں ڈال دیا ہے۔ بڑھتی ہوئی غیر مقبولیت وفاق کے لیے پی ٹی آئی کے مارچ کو روکنا مشکل بنارہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے اقتدار کو ابھی ایک سال بھی نہیں ہوا مگر وہ اس مختصر عرصے میں ہی بہت حد تک اپنی سیاسی ساکھ کھوچکی ہے، خاص طور پر پنجاب میں جو کبھی اس کی طاقت کا گڑھ ہوا کرتا تھا۔ اس بات کا بھی کوئی امکان نہیں کہ آنے والے ماہ میں حالات تبدیل ہوکر ان کے حق میں ہوجائیں گے۔ ایسے میں ملک کو ایک ایسی نمائندہ حکومت کی ضرورت ہے جس کے پاس نیا مینڈیٹ ہو تاکہ وہ پاکستان میں استحکام لاسکے۔ ہم جس دلدل میں دھنس رہے ہیں اس سے نہ تو پراکسی اور نہ ہی ہائبرڈ نظام ہمیں نکال سکتا ہے۔

Back to top button