کیا PTI تیرہ سیٹیں جیت کر پرویز کو وزیر اعلیٰ بنا پائے گی؟
وزیرِاعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کو وزارت اعلیٰ پر برقرار رہنے کے لیے 17 جولائی کے ضمنی الیکشن میں 9 نشستیں درکار ہیں جبکہ پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ بنوانے کے لیے ضروری ہے کہ تحریک انصاف پنجاب کے ضمنی الیکشن میں کم ازکم 13 سیٹیں جیت جائے جو کہ ممکن نظر نہیں آتا۔
پنجاب کے ضمنی انتخابات اس لیے بھی اہم ہیں کہ حال ہی میں پی ٹی آئی کی مرکز میں حکومت ختم ہونے کے بعد یہ پہلا موقع ہو گا جب سابق وزیرِاعظم عمران خان کو ‘عوام کے پاس جانے’ یعنی الیکشن کروانے اور عوام میں مقبولیت کے اپنے بیانیے کو عملی طور پر ثابت کرنے کا موقع ملے گا۔ پنجاب کے 20 ضمنی حلقوں میں مقابلہ واضح طور پر دو ہی جماعتوں یعنی مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے درمیان ہو گا۔ پیپلز پارٹی پہلے ہی ن لیگ کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر چکی ہے اور مسلم لیگ ق پی ٹی آئی کا ساتھ دے رہی ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق 17 جولائی کو زیادہ تر حلقوں میں مقابلہ سخت رہنے کی توقع ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مسلم لیگ ن نے زیادہ تر حلقوں میں پی ٹی آئی کے ان ہی سابق ممبران کو ٹکٹ دے رکھے ہیں جن کے منحرف ہونے کی وجہ سے یہ نشستیں خالی ہوئی تھیں۔ یعنی یہ امیدوار اپنی ہی سابقہ جماعت کے خلاف ن لیگ کے امیدوار کے طور پر الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنی الیکشن مہم کے دوران ‘وفاداری تبدیل کرنے والے’ سیاستدانوں کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ انتخابی مہم میں یہ ان کے بنیادی نعروں میں سے ایک ہے کہ ‘عوام ایسے ضمیر فروش سیاست دانوں کو سبق سکھائیں گے۔’ اپنی حکومت ختم ہونے کے بعد عمران خان کئی مرتبہ اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ پہلے ان سے غلطی ہوئی لیکن اب وہ ٹکٹ صرف جماعت کے دیرینہ کارکنوں کو دیں گے۔ تاہم ضمنی انتخابات میں ن لیگ کے زیادہ تر ‘الیکٹیبلز’ کے خلاف انھوں نے بھی جن امیدواروں کو ٹکٹس دیے ہیں ان میں اکثریت ‘الیکٹیبلز’ کی ہے۔ یعنی ایسے سیاستدان جن کا ذاتی یا خاندانی اثر و رسوخ یا ووٹ بینک موجود ہے۔ ان میں بھی زیادہ تر ایسے سیاستدان شامل ہیں جو یا تو حال ہی میں کسی دوسری جماعت سے پی ٹی آئی میں شامل ہوئے ہیں یا پھر پی ٹی آئی میں آنے سے پہلے ایک یا ایک سے زیادہ جماعتیں تبدیل کر چکے ہیں۔
ایسے میں سوال یہ ہے کہ پی ٹی آئی وعدے کے مطابق اپنے دیرینہ کارکنون کو ٹکٹس دینے کی بات پر عملدرآمد کیوں نہیں کر پائی؟ کیا وہ ضمنی انتخابات میں رسک نہیں لینا چاہتی یا پھر حقیقت میں اس کے لیے الیکٹیبلز کے بجائے کارکنوں کو ٹکٹ دینا کسی بھی الیکشن میں ممکن نہیں ہے؟
اس کے لیے ضمنی انتخابات کے چند حلقوں پر نظر ڈالتے ہیں کہ پی ٹی آئی کو ان انتخابات میں کس نوعیت کے مقابلے کا سامنا ہے اور کیا ان انتخابات کے نتائج مستقبل میں عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے لائحہ عمل پر بھی اثرانداز ہوں گے؟ پی پی 272 مظفر گڑھ صوبائی اسمبلی کی یہ نشست تحریکِ انصاف کی سابق رکن پنجاب اسمبلی سیدہ زہرہ بتول کے منحرف ہونے پر خالی ہوئی۔ اسی حلقے سے ان کے صاحبزادے سید باسط سلطان بخاری پی ٹی آئی کے ‘ناراض’ رکن قومی اسمبلی ہیں۔ ضمنی انتخابات میں باسط سلطان کی اہلیہ زہرہ باسط بتول ن لیگ کی امیدوار ہیں۔ لیکن دوسری طرف باسط سلطان کے بھائی ہارون بخاری بھی آزاد امیدوار کے طور پر میدان میں موجود ہوں گے۔ ایک ہی خاندان کی ان دو شخصیات میں سخت مقابلہ متوقع ہے۔
ایسے میں تحریکِ انصاف نے ان کا مقابلہ کرنے کے لیے معظم خان جتوئی کو میدان میں اتارا ہے۔ وہ سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے جتوئی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے کزن عبدالقیوم خان جتوئی 2008 سے 2010 تک صوبائی وزیر بھی رہ چکے ہیں۔ روایتی طور پر اس حلقے میں سیاسی جماعتوں کے مقابلے شخصیات اور برادری سسٹم کو سامنے رکھتے ہوئے ووٹ دیا جاتا ہے۔ معظم خان جتوئی نے 2018 میں بھی پی ٹی آئی کے امیدوار کے طور پر الیکشن میں حصہ لیا تھا لیکن آزاد امیدوار باسط سلطان سے شکست کھا گئے تھے۔ اس سے قبل وہ ایک مرتبہ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ممبر قومی اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں۔
انسٹی ٹیوٹ فار لیجیسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرینسی یعنی پلڈیٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب سمجھتے ہیں کہ کم از کم ضمنی انتخابات میں تحریکِ انصاف کے لیے دیرینہ پارٹی ورکرز کو ٹکٹ دینا ممکن نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ ایسے حالات میں جہاں اسے سخت مقابلے کا سامنا ہے اور جیت کے لیے بہت کم مارجن موجود ہے وہاں اس وقت پی ٹی آئی کی اولین ترجیح الیکٹیبلز ہیں۔ احمد بلال کے مطابق ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کی طرف سے الیکٹیبلز کو ٹکٹ دینے کی منطق سمجھ میں آتی ہے اور کم از کم ان انتخابات میں دیرینہ ورکرز کو ٹکٹ نہ دینے پر انھیں قصوروار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ ان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے مدِ مقابل جماعتوں کی طرف سے بھی تو الیکٹیبلز ہی سامنے ہیں اور کچھ حلقوں میں اس کے علاوہ چارہ ہی نہیں ورنہ خطرہ ہوتا ہے کہ آپ وہ سیٹ ہار جائیں گے۔ ان کا ماننا ہے کہ اگر پی ٹی آئی نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ انھیں یہ سیٹ جیتنی ہے تو الیکٹیبلز کی طرف جانے سوا کوئی راستہ نہیں تھا۔
اسی طرح پی پی 224 لودھراں تحریکِ انصاف کے سابق سینیئر رہنما جہانگیر خان ترین کا علاقہ ہے۔ جہانگیر خان ترین سابق وزیرِاعظم عمران خان کے قریب ترین ساتھیوں میں شمار کیے جاتے تھے تاہم وہ اب خان صاحب سے اپنی راہیں جدا کر چکے ہیں۔ ان کے حامی یعنی ‘ترین گروپ’ کے ممبران صوبائی اسمبلی نے حال ہی میں پی ٹی آئی کے خلاف پنجاب اسمبل میں وزیرِاعلٰی کے الیکشن میں ووٹ دیا تھا۔ لودھراں کے حلقہ پی پی 224 سے تحریکِ انصاف کے زوار حسین وڑائچ گذشتہ عام انتخابات میں کامیاب ہوئے تھے۔ تاہم وہ ترین گروپ کا حصہ تھے اور حال میں منحرف ہونے والے اراکین میں شامل تھے۔ اب وہ مسلم لیگ ن کے امیدوار ہیں۔ ان کے مقابلے میں پی ٹی آئی نے عامر اقبال شاہ قریشی کو ٹکٹ دے رکھا ہے۔ وہ اس سے قبل ایک مرتبہ ن لیگ اور ایک مرتبہ ق لیگ کی ٹکٹس پر ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں۔ ان کے والد پیر اقبال شاہ قریشی نے 2018 کے عام انتخابات میں ن لیگ کی ٹکٹ پر قومی اسمبلی کی نشست کے لیے اس وقت کے پی ٹی آئی کے امیدوار اور جہانگیر ترین کے صاحبزادے علی خان ترین کو شکست دی تھی۔ اس حلقے میں دیکھا جائے تو پی ٹی آئی نے ایک مرتبہ پھر الیکٹیبلز کو اپنا امیدوار بنایا ہے جو اس سے قبل بھی ایک سے زیادہ سیاسی جماعتیں تبدیل کر چکے ہیں۔ جبکہ ساتھ ہی الیکشن مہم میں چئیرمین عمران خان ‘لوٹوں’ کو سبق سکھانے کا نعرہ لگا رہے ہیں۔
تجزیہ نگار اور سربراہ پلڈیٹ احمد بلال محبوب کے مطابق جس قسم کے حالات پنجاب میں اور ضمنی انتخابات میں بن چکے ہیں یہ پی ٹی آئی کے لیے ‘ڈو اور ڈائی’ کی صورت حال ہے۔ اس میں یہ توقع کرنا درست نہیں تھا کہ وہ الیکٹیبلز کو ٹکٹ نہیں دیں گے۔ احمد بلال سمجھتے ہیں کہ ‘لوٹوں کو سبق سکھانا پی ٹی آئی کے لیے ایک انتخابی نعرہ ضرور بن کر ابھرا ہے اور وہ ظاہر ہے اس سے فائدہ بھی اٹھانا چاہیں گے۔’ تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ بھی حقیقت تھی کہ ان کی اپنی جماعت میں بھی زیادہ تر الیکٹیبلز ہی موجود تھے۔ پی پی 228 لودھراں کی دوسری نشست پر بھی پاکستان مسلم لیگ ن نے نذیر احمد خان کو ٹکٹ دے رکھی ہے جو پی ٹی آئی کے منحرف رکن تھے اور گذشتہ عام انتخابات میں اس نشست پر کامیاب ہوئے تھے۔
تاہم لودھراں کے اس حلقے میں آزاد امیدوار پیر سید رفیع الدین شاہ بخاری کو بھی ایک مضبوط امیدوار تصور کیا جا رہا ہے۔ ان کے بارے میں تاثر یہ ہے کہ اگر وہ نشست جیت بھی جاتے ہیں تو وہ مسلم لیگ ن میں شامل ہو جائیں گے۔ یوں اس حلقے میں پی ٹی آئی کو دوہرے مقابلے کا سامنا ہے۔ اس حلقے میں مقابلے کے لیے پی ٹی آئی نے عزت جاوید خان کو اپنا امیدوار مقرر کیا ہے۔ انھوں نے 2008 میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیا تھا اور چند سو ووٹوں کے فرق سے پیر سید رفیع الدین شاہ کے ہاتھوں شکست کھا گئے تھے۔ لہٰذا احمد بلال محبوب سمجھتے ہیں کہ دو ہی صورتوں میں سیاسی جماعتوں کے لیے ممکن ہو پاتا ہے کہ وہ اپنے ایسے کارکنان کو ٹکٹس دے پائیں جو ایک لمبے عرصے سے جماعت کے ساتھ وفادار رہے ہیں۔ ہا تو آپ کو شکست کا خطرہ نہ ہو یا پھر آپ کے پاس الیکٹیبلز ہی نہ ہوں تو پھر ہی ہو سکتا ہے کہ آپ اپنے دیرینہ پارٹی کارکنوں کو ٹکٹس دیں۔