کپتان کا تاریخی یوٹرن: سٹیل مل ملازمین کا لڑنے اور مرنے کا اعلان


کپتان حکومت کی جانب سے اپنے ماضی کے وعدے کے برعکس پاکستان سٹیل ملز کراچی کے تمام دس ہزار ملازمین کو اچانک برطرف کردینے کے فیصلے کے خلاف شدید ردعمل سامنے آیا ہے اور متاثرہ ملازمین نے اعلان کیا ہے کہ وہ وفاقی حکومت کے اس یوٹرن فیصلے کو تسلیم نہیں کرتے اور اس کے خلاف سڑکوں پر آئیں گے۔
مانا کے وزیراعظم پاکستان یوٹرن لینے کو عظیم لیڈروں کی نشانی قراردیتے ہیں لیکن پاکستان اسٹیل ملز کے ملازمین ان کے اس فلسفے کو نہیں مانتے اور ان کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم اور وزیر خزانہ اسد عمر نے ماضی میں اسٹیل ملز کی بحالی کے حوالے سے جو وعدہ کیا تھا اس پر عمل درآمد کیا جائے بجائے کے وعدہ خلافی کرتے ہوئے دس ہزار ملازمین کو بیروزگار کردیا جائے۔
یاد رہے کہ پاکستان سٹیل مِلز ایک طویل عرصے سے معاشی مشکلات کا شکار ہے۔ ماضی میں متعدد حکومتوں نے اس کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کی مگر ناکامی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا۔ اب وفاقی حکومت نے نے اسٹیل ملز کے دس ہزار ملازمین کو اچانک نوکریوں سے برخاست کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ یہ ادارہ طویل عرصے سے بندش کا شکار ہے اور بلاوجہ ملازمین کو تنخواہیں ادا نہیں کی جاسکتیں۔ جبکہ سچ تو یہ ہے کہ ملازمین کو پچھلے کئی ماہ سے تنخواہوں کی ادائیگی نہیں ہو رہی۔
یاد رہے کہ پاکستان سٹیل مل کا سنگِ بنیاد بھٹو دور میں 30 دسمبر 1973 میں کراچی میں رکھا گیا اور یہ آج تک پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی کمپلیکس ہے جو کہ روس کی معاونت کے ساتھ سرکاری تحویل میں تعمیر کیا گیا۔ پچیس ہزار ایکڑ پر محیط یہ دیو ہیکل ادارہ پچھلے کئی سال سے سرکاری معاونت نہ ہونے کے باعث شدید مشکلات کا شکار ہے اور جون 2015ء سے مکمل طور پر بند پڑا ہے۔
حال ہی میں کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے اس سلسلے میں ایک سمری کی اصولی منظوری دی ہے جس کے تحت اس مل کے تمام 9350 ملازمین کو واجبات اور دیگر ادائیگیوں کے بعد ملازمت سے فارغ کرنے کا پروانہ تھما دیا جائے گا۔
یہ خبر منظر عام پر آنے کی دیر تھی کہ سوشل میڈیا پر ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔ عام شہریوں کے علاوہ سیاسی شخصیات، سرکاری ملازمین کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی یونینز اور تنظیموں کے نمائندگان اور صحافی حضرات نے اس پر اپنی آرا کا اظہار کیا۔
بیشتر لوگوں نے اس فیصلے کی مذمت کی جبکہ بہت سوں نے اسے موجودہ حکومت کی ناکامی سے تعبیر کیا۔ چند صارفین موجود حکومت کے نمائندوں اور وزرا کی جانب سے ماضی میں پاکستان سٹیل مل کے حوالے سے کیے گئے بلند و بانگ دعوؤں کی یاد دلانے میں مصروف رہے۔
یاد رہے کہ جب تحریک انصاف حزبِ اختلاف میں تھی تو وفاقی وزیر اسد عمر نے سٹیل مل کے ملازمین سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ان کی حکومت آئی تو وہ سٹیل مل کو دوبارہ چلا کر دکھائیں گے۔انھوں نے ملازمین سے خطاب میں کہا تھا کہ ’میری ویڈیو ریکارڈ کر لیں تاکہ اگر میں اپنے بیان سے پیچھے ہٹوں تو کل آپ مجھے یہ دکھا کر شرمندہ کر سکیں۔ میں آپ کے ساتھ یہ وعدہ کرتا ہوں کہ اگر تحریک انصاف کی حکومت آئی اور سٹیل مل کے مزدوروں کے خلاف کوئی فیصلہ کیا گیا تو میں تحریک انصاف کے ساتھ نہیں بلکہ سٹیل مل کے مزدوروں کے ساتھ کھڑا رہوں گا۔‘ اب یہی ویڈیو صارفین سوشل میڈیا پر پوسٹ کر رہے ہیں اور اسد عمر کے کہے ہوئے الفاظ کے مطابق انھیں شرمندہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم لگتا تو یہی ہے کہ انہیں اس فیصلے پر کوئی شرمندگی نہیں ورنہ اس طرح کا فیصلہ ہوتا ہی نہ۔
سعید خان نامی ایک صارف کا کہنا تھا کہ ’حکومتی فیصلہ سٹیل مل کارکنان کے معاشی قتل عام کے مترادف ہے، ہم آپ کو ایسا نہیں کرنے دیں گے۔‘
شہریار بھگت نے جو اپنے ٹوئٹر پروفائل کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی طلبہ ونگ کے رہنما ہیں، وزیر اعظم عمران خان کا ماضی کا ایک خطاب شیئر کیا۔ اس خطاب میں اپوزیشن رہنما کے طور پر عمران خان سٹیل مل کے ملازمین کو آگاہ کر رہے ہیں کہ اگر ان کی حکومت آتی ہے تو وہ سٹیل مل کو کیسے اپنے پاؤں پر کھڑا کریں گے۔
شہریار بھگت نے لکھا کہ ماضی میں عمران خان کہتے تھے کہ مینیجمینٹ لا کر سٹیل مل کو بہتر بنائیں گے جبکہ موجود وقت میں عمران خان کی حکومت نے 9350 ملازمین کو نوکریوں سے فارغ کر دیا ہے۔
چند صارفین ایسے بھی ہیں جو اس فیصلے کو صوبائیت کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔ایک ٹوئٹر صارف نے لکھا کہ ’نوکری پیشہ افراد کو نوکریوں سے فارغ کرنا پی ٹی آئی کے منشور میں شامل نہیں تھا۔ پی ٹی آئی کا نعرہ تھا کہ ہم لاکھوں نوکریاں دیں گے۔ سٹیل مل کے مزدوروں کو نوکری سے نکالنا سندھ سے دشمنی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔‘
ایک اور ٹوئٹر صارف نے لکھا کہ ’حکومت کو اب عوام الناس کی پرواہ کرنے کا ڈھونگ رچانے کی ضرورت نہیں۔ عمران خان خطاب کرتے ہیں کہ لاک ڈاؤن میں نرمی سے کِس طرح مزدوروں اور نوکری پیشہ افراد کی مدد ہو گی مگر دوسری طرف اُن کی حکومت سٹیل مل کے کارکنان کو بیروزگار کرنے کا فیصلہ کرتی ہے۔‘
سرخ مناہل نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’سٹیل مل آٹھ ہزار ملازمین کو نوکری سے فارغ کر رہی ہے جبکہ سنہ 2013 کے بعد ریٹائر ہونے والے چار ہزار سٹیل مل ملازمین کو ان کے ریٹائرمنٹ فنڈز نہیں ملے۔ واجبات کی وصولی سے قبل ہی 600 سے زائد ملازمین انتقال کر چکے ہیں۔ برائے مہربانی اس مسئلے پر آواز اٹھائیے۔
ایک اور صارف نے دعویٰ کیا کہ ’پاکستان میں ایک بھی ایسا شخص نہیں جسے گولڈن ہینڈ شیک کے بعد پینشن ملی ہو۔ میرے والدین ایک وقت میں این ڈی ایف سی کے ملازمین تھے۔ ان سے این بی پی میں نوکری ملنے اور پینشن دینے کا وعدہ کیا گیا تھا جو کبھی بھی پورا نہیں ہو۔ سٹیل مل کے کارکنان کو بھی کبھی اپنی پینشن نہیں ملی۔‘
محمد عمران مہدی نے لکھا کہ ’صاف بات یہ ہے کہ ماضی میں عمران خان اور اُن کی ٹیم کے پاس ہر مسئلے کا حل موجود تھا جس میں سٹیل مل بھی شامل ہے۔ مگر وقت نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ انتخابات کے لیے سیاسی جملہ بازی کے علاوہ کچھ نہیں تھی جو ووٹر کو اپنی طرف کھینچنے کی کوشش تھی۔‘

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button