پی ڈی ایم قیادت پر بغاوت کیسز: جوابی کارروائی کا امکان


خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے پی ڈی ایم قیادت کے خلاف بغاوت کے مقدمات کے اندراج کے بعد اب وفاقی حکومت کی جانب سے بھی جوابی کارروائی کرنے کا امکان پیدا ہوگیا ہے۔ وزارت داخلہ کے ذرائع نے بتایا ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے انتقامی بنیادوں پر پی ڈی ایم رہنماؤں کے خلاف درج کرائے گئے بغاوت کیسوں کے خاتمے کے علاوہ جوابی قانونی کارروائی بھی کی جائے گی۔ انہوں نے بتایا کہ پی پی سی کے سیکشن 182 اور 211 کے تحت جھوٹے الزامات عائد کرنے پر جوابی مقدمات کے اندراج کی درخواست بھی دی جائے گی۔ وزارت داخلہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ جھوٹے مقدمات کے اندراج پر عمران خان اور وزیراعلیٰ محمود خان کے خلاف قانونی کارروائی کی درخواست دی جا رہی ہے۔

یاد رہے کہ خیبر پختونخوا حکومت نے ڈیرہ اسماعیل خان کے گریڈ 17 کے اسسٹنٹ کمشنر کو کسی بھی فرد پر ریاست کے خلاف ’غداری‘ کے مقدمات درج کرنے کا اختیار دے دیا ہے اور تحریک انصاف کے علی امین گنڈا پور سمیت درجنوں لوگوں سے پی ڈی ایم کے رہنماؤں کے خلاف درخواستیں وصول کرنے کا کہا گیا ہے۔ یاد رہے کہ پشاور ہائی کورٹ کے ایک وکیل نور شیر کی جانب سے 22 اگست کو پشاور کے تھانہ شرقی میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے مولانا فضل الرحمن، آصف علی زرداری، نواز شریف، شہباز شریف، رانا ثنا اللہ، خواجہ سعد رفیق، عطا تارڈ، پرویز رشید اور ایاز صادق کے خلاف غداری کے مقدمات درج کرنے کے لیے درخواست دائر کی گئی تھی۔ درخواست میں لکھا گیا ہے کہ پی ڈی ایم کے رہنماؤں نے ’سوشل میڈیا پر موجود ویڈیو کلپس میں پاک فوج اور دیگر عسکری قیادت اور عدلیہ کے خلاف نفرت انگیز اور اشتعال انگیز رویہ اپنا کر پاکستان کو ہمسایہ ملک کی ایما پر کمزور کرنے کی سازش رچائی‘ ہے۔

درخواست گزار کے مطابق: ’ملزمان نے اپنے بیانات میں یہ تاثر دیا کہ جیسے ان کی نظر میں فوج پاکستانی عوام کی دشمن ہے اور اسی وجہ سے انہوں نے اپنے بیانات میں پاک فوج، ریٹائرڈ جرنیلوں اور حاضر سروس جرنیلوں کے نام لے کر ان کے خلاف نفرت انگیزی پھیلانے کی کوشش کی ہے۔‘ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ قانون کے مطابق کوئی بھی حکومت کسی سیاسی شخص کو درخواستیں جمع کرانے کا اختیار نہیں دے سکتی، کیونکہ اس سے یہ قانون سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال ہو سکتا ہے۔

کے پی حکومت کے مراسلے کے مطابق ڈیرہ اسماعیل خان کے اسسٹنٹ کمشنر منیر احمد کو کریمینل پروسیجر ایکٹ کی دفعہ 196 کے تحت اختیار دے دیا گیا ہے کہ وہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 108A,153A, اور 505 کے تحت مقدمات درج کر سکتے ہیں۔ مراسلے میں لکھا گیا ہے کہ اختیار کنندہ پاکستان تحریک انصاف کے ڈی آئی خان سے سابق رکن قومی اسمبلی علی امین خان گنڈا پور یا کسی بھی شخص سے ان دفعات کے تحت درخواست وصول کریں۔ مراسکےمیں کہا گیا ہے کہ کریمینل پروسیجر ایکٹ کی دفعہ 196 کے مطابق صوبائی یا وفاقی حکومت کسی بھی سرکاری ملازم کو ریاست کے خلاف جرائم کے مقدمات درج کرنے کا اختیار دے سکتی ہے۔

اس دفعہ کے مطابق: ’کوئی بھی عدالت پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 108A,153A, 294A, 295A, اور 505کے تحت تب تک کارروائی نہ کرے ، جب تک ان مقدمات کی درخواست صوبائی یا وفاقی حکومت کی طرف سے اختیار کنندہ افسر کی طرف سے دائر نہ کی گئی ہو۔‘

پاکستان پینل کوڈ ( پی پی سی ) کی یہ دفعات ریاست کے خلاف جرائم کی ہیں۔ پی پی سی کی دفعہ 108A کسی کو قتل پر اکسانے کے حوالے سے ہے اور اگر کسی شخص نے کسی دوسرے شخص کو قتل کرنے پر اکسایا تو ان کے خلاف مقدمہ درج ہوگا۔ اسی طرح پی پی سی کی دفعہ 153A زبانی، تحریری طور پر یا کسی بھی دوسرے طریقے سے کسی مذہبی یا دوسرے گروپ کے جذبات کو ابھارنے کے حوالے سے ہے جو ریاست کے خلاف جرم قرار دیا جاتا ہے جبکہ پی پی سی کی دفعہ 505 مسلح افواج کے خلاف کچھ بولنے، لکھنے یا شائع کرنے کے حوالے سے ہے۔

یاد رہے کہ تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے 2020 میں بھی اسی قسم کا ایک نوٹیفکیشن جاری کیا تھا جس میں وزارت داخلہ کے ایک سیکرٹری کو ریاست کے خلاف غداری کے مقدمات درج کرنے کا اختیار دیا گیا تھا۔ صوبائی حکومت کی جانب سے علی امین گنڈا پور کو مقدمات درج کرنے کے اختیار پر صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف سے رابطہ کیا گیاتو ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے ریاستی اداروں کے خلاف نفرت انگیز بیانات پر پی ڈی ایم رہنماؤں کے خلاف غداری مقدمات درج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا کہ ’اس حوالے سے ڈی آئی خان کے اسسٹنٹ کمشنر منیر احمد کو اختیارات دیے ہیں اور یہ مقدمات علی امین کی شکایات پر درج کیے جائیں گے۔‘

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ اقدام قانونی ہے؟پشاور ہائی کورٹ کے وکیل اور ریاست کے خلاف مقدمات کی پیروی کرنے والے طارق افغان کہتے ہیں کہ صوبائی حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی کو بھی اختیار دے، تاہم قانون میں ایسا کچھ نہیں ہے کہ وہ کسی سیاسی رہنما کو اس مقصد کے لیے اختیارات دے۔ طارق افغان نے کہا کہ ’اس میں ایک قانونی نکتہ یہ بھی ہے کہ ایک کیس کے لیے الگ الگ نوٹیفکیشن جاری کریں گے۔ جو خیبر پختونخوا حکومت نے کیا ہے، اس کا واضح مقصد تو یہ ہو سکتا ہے کہ صوبائی حکومت اس قانون کو سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کرنا چاہتی ہے۔‘ طارق افغان نے مزید کہا کہ ’قانونی طور پر ایک سرکاری ملازم کو اس مقصد کے لیے اختیار دینا چاہیے کیونکہ اگر صرف ایک شخص کو یہ اختیار دیا جائے تو یہ ایک قسم کی آمریت ہوگی اور سیاسی رہنما اس قانون کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کریں گے۔

انکا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے خلاف غداری کے مقدمات درج ہوئے ہیں جن میں عمران خان کے چیف آف سٹاف شہباز گل پہلے سے زیر حراست ہیں، لہٰذا نوٹیفکیشن سے لگتا ہے کہ چونکہ یہاں صوبے میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے تو حکومت اس قانون کو استعمال کر کے سیاسی مخالفین پر غداری کے مقدمات درج کرانا چاہتی ہے۔‘

Back to top button