لاہور ہائیکورٹ کیلئے 13ججز کی نامزدگی زیر تنقید

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے بطور جج تعیناتی کے لیے منظور کیے جانے والے 13 ناموں پر سخت اعتراضات سامنے آ رہے ہیں اور ناقدین کا کہنا ہے کہ ججوں کی تعیناتی کے لیے مقرر کردہ میرٹ کا کھلم کھلا قتل عام کرتے ہوئے رشتہ داروں اور سیاسی وابستگیاں رکھنے والوں کو جج بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
یاد رہے کہ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس قاسم خان نے پنجاب میں ججز کی خالی آسامیاں پر کرنے کے لیے 13 وکلا کے ناموں کی فہرست تیار کی تھی جسکی چیف جسٹس سپریم کورٹ گلزار احمد کی زیر صدارت جوڈیشل کمیشن کے اجلاس نے بھی منظوری دے دی ہے۔ اب یہ فہرست حتمی منظوری کے لیے پارلیمانی کمیٹی کو بھجوا دی گئی یے۔ جوڈیشل کمیشن نے 10 وکلا اور تین سیشن ججز کو لاہور ہائیکورٹ کا جج بنانے کی منظوری دیتے ہوئے معاملہ پارلیمانی کمیٹی برائے ججز کو ارسال کیا ہے جو اب اس پر حتمی فیصلہ کرے گی۔ جوڈیشل کمیشن نے بیرسٹر راحیل کامران شیخ، سینئر ایڈووکیٹ انوار حسین، ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل پنجاب امجد رفیق، ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب شان گل، ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج صفدر سلیم شاہد اور ایڈووکیٹ عابد حسین چٹھہ کو لاہور ہائیکورٹ کا جج بنانے کی منظوری دی ہے۔ اسی طرح جوڈیشل کمیشن نے ایڈووکیٹ طارق ندیم، ایڈووکیٹ احمد ندیم ارشد، ایڈووکیٹ علی ضیا باجوہ، ایڈووکیٹ تنویر سلطان، سیشن جج سہیل ناصر، ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج شکیل احمد اور ایڈووکیٹ رضا قریشی کو لاہور ہائیکورٹ کا جج بنانے کی منظوری دے دی۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن نے 13 ناموں کی فہرست کی منظوری دیتے ہوئے معاملہ پارلیمانی کمیٹی برائے ججز کو ارسال کر دیا ہے۔
تاہم ناقدین ان ناموں پر شدید اعتراض کر رہے ہیں جنہیں بطور جج تعیناتی کے لیے لیے پارلیمانی کمیٹی کو بھجوایا گیا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہےکہ کم ترین اہلیت کے لوگ صرف اس لیے جج تعینات کیے جاتے ہیں کہ حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ کے لیے کرپٹ اور نالائق منصف ذیادہ کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔ لیکن ظلم یہ ہے کہ چند سال بعد ہائیکورٹ کے یہی ججز سپریم کورٹ میں بیٹھے ہوں گے اور کسی وزیر اعظم کی قسمت کا فیصلہ کررہے ہوں گے۔
یاد رہے کہ لاہور ہائی کورٹ کی ڈھائی برس سے خالی پڑی 22 اسامیوں کے لیے 13 ججز کے ناموں کی منظوری دی گئی ہے، تاہم ناقدین کہتے ہیں کہ جو 13 افراد ملک کے سب سے بڑے صوبے کی ہائی کورٹ کے جج بننے جارہے ہیں، ان کی قابلیت اور میرٹ پر ہر سطح پر سمجھوتہ کیا گیا ہے۔ جوڈیشل کمیشن کی طرف سے لاہور ہائیکورٹ کے ججز کے لئے منظور کردہ 13 ناموں میں سے سب سے ذیادہ اعتراض ایڈووکیٹ عابد حسین چٹھہ پر کیا جا رہا ہے۔ عابد چٹھہ کے بارے میں انکشاف ہوا ہے کہ ان کا تعلق حکمران جماعت تحریک انصاف سے یے اور وہ 2018 میں پارٹی کی جانب سے ایم پی اے کا الیکشن لڑ کر ہار چکے ہیں۔ انہوں نے 2018 میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر PP 141 شیخوپورہ سے صوبائی اسمبلی کی نشست پر انتخاب لڑا تھا۔اس سے قبل ایڈووکیٹ عابد حسین چھٹہ مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر 2003 سے 2008 تک ایم پی اے بھی رہ چکے ہیں۔
لاہور ہائی کورٹ کے لیے نامزد ججوں میں ایک اور نام علی ضیاء باجوہ کا ہے جو ایک موجودہ وفاقی وزیر کے بہنوئی ہیں، ناقدین کا کہنا ہے کہ اگر تعلیمی قابلیت کو دیکھا جائے تو علی باجوہ سول جج لگنے کے قابل بھی نہیں ہیں، سوچئے یہ موصوف ہائی کورٹ کا جج لگ کر جمہوریت اور قانون پر کیا ظلم ڈھائیں گے۔
بطور جج نامزد ہونے والے ایک اور صاحب سلطان تنویر ہیں جو مشہور اسٹور Chen one کے مالک کے بیٹے کے سالا صاحب ہیں اور یہی ان کی مجوزہ نامزدگی کی وجہ بھی قرار دی جارہی ہے۔ ایک اور نام راحیل کامران شیخ کا ہے جو مشہور قانون دان اکرم شیخ کے بیٹے ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ اکرم شیخ کا بیٹا ہونا ہی ان کا اصل میرٹ ہے۔ بطور جج نامزد ہونے والا ایک اور نام ہمیشہ سے اقتدار کے ایوانوں میں رہنے والے نعیم چٹھہ کے بیٹے اور ماناں والا سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ ہولڈر عابد چٹھہ کا ہے جو صرف اور صرف ایک سیاسی وکیل ہے۔ ان کی سفارش بھی موجودہ کابینہ کے ایک وفاقی وزیر نے کی ہے حالانکہ پنجاب کے وزیر قانون راجہ بشارت کو اس نام پر اعتراض تھا۔ ایک اور نام ندیم احمد کا ہے جن کا تعلق بہاولپور سے ہے۔ ان پر پنجاب بار کونسل کے ووٹ فروخت کرنے کا الزام ہے اور انکی عمومی شہرت بھی کوئی اچھی نہیں ہے۔ اگلا نام طارق ندیم کا ہے جن کا تعلق ملتان سے ہے۔ یہ صاحب موجودہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے قریبی رشتہ دار ہیں اور یہی ان کے نامزدگی کی واحد قرسر دینجا رہی ہے۔ ایک اور نام شان گل کا ہے جو اپنے بیک گراؤنڈ اور طاقتور حلقوں کی سفارش پر بار بار لاء آفیسر لگتے رہے ہیں اور اب لاہور ہائی کورٹ کے جج کے لیے نامزد ہو رہے ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ پارلیمانی کمیٹی ان تیرہ ناموں میں سے کتنے لوگوں کو جج کے عہدے کے قابل سمجھ کو ان کی منظوری دیتی ہے۔