پاکستان میں چائلڈ لیبر کے خلاف بغاوت کرنے والے اقبال کی کہانی


نوے کی دہائی میں پاکستان میں چائلڈ لیبر کے خلاف علم بغاوت بلند کرکے ہزاروں بچوں کو جبری مجبوری کی اذیت سے بچانے والے نوعمر ہیرو اقبال مسیح کی جدوجہد سے نہ صرف آج اکثر پاکستانی ناواقف ہیں بلکہ 26 برس گزرنے کے باوجود اس کے قاتل بھی نہیں پکڑے جاسکے۔
اقبال مسیح 1983 میں پیدا ہوا۔ اس کی ماں ایک قالین بنانے والی فیکٹری میں ملازمہ تھی۔ جب اقبال چار سال کا تھا تو فیکٹری کے مالک نے زبردستی اسے ماں کی جگہ کام پہ لگا دیا کیونکہ اقبال کی ماں نے چھ سو روپے قرض لیا تھا جو وہ بیماری کے باعث ادا نہ کر پائی اور بدلے میں اقبال کو فیکٹری مالک کے حوالے کرنا پڑا۔ اتنی چھوٹی سی عمر ہی سے اقبال مسیح نے زندگی کا بدصورت رخ جھیلنا شروع کیا۔ چونکہ فیکٹری مالک صرف ایک وقت کا کھانا دیتا تھا اور پورا ہفتہ روزانہ 14 گھنٹے کام کرواتا تھا۔ بغاوت نے اقبال کے ذہن میں جنم لیا سو وہ 1990 کو غلامی کی زنجیریں توڑ کر بھاگ نکلا۔ اقبال نے اپنے ساتھ لاہور کے تین ہزار بچوں کو بھی سرمایہ داروں کی قید سے آزاد کروایا۔ کہا جاتا ہے کہ اقبال مسیح نے 10 سال کی عمر میں بچوں کی آزادی کی پہلی تحریک کی بنیاد رکھی۔ اقبال کی پارٹی کا نام bonded child libration تھا۔ اقبال ایک لیڈر بن چکا تھا، اس دس سالہ لیڈر نے سرمایہ داروں کی فیکٹریوں اور اینٹوں کے بھٹوں سے ہزاروں مزدور بچوں کو آزاد کیا۔ لیکن اس ننھے انقلابی کو 1995 میں گولیوں سے بھون دیا گیا۔ اقبال مسیح کو پوری دنیا میں اعزازات سے نوازا گیا۔ کینیڈا میں آج بھی اقبال مسیح کے نام سے چلڈرن رائٹس فنڈ ایشو ہوتا ہے۔1994 میں ریبوک چائلڈ ہیرو کا ایوارڈ بھی اقبال کے حصہ میں آیا مگر پاکستان میں زیادہ تر لوگ اقبال مسیح کو جانتے ہی نہیں۔
ضلع شیخوپورہ کے نواحی شہر مریدکے میں آنکھ کھولنے وال اقبال مسیح غربت کے باعث چار سالہ اقبال کو مزدوری کرنے پر مجبور کر دیا گیا تھا۔ چھ سال تک کے لیے اقبال دن میں چودہ گھنٹے تک کام کرتا رہا مگر اس کے والدین قرض نہ چکا سکے۔ جب وہ دس سال کا ہوا تو اس جبری مشقت سے نجات حاصل کرنے کے لیے بھاگ کھڑا ہوا مگر پولیس کے مقامی افسران نے اس کو پکڑ کر دوبارہ اسی تاجر کے حوالے کر دیا۔ اب کی بار کام کا بوجھ مزید بڑھا دیا گیا مگر ایک ہی سال بعد اقبال پھر سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس دفعہ خوش قسمتی سے وہ ’چائلڈ لیبر‘ کے خلاف سرگرم تنظیم کے پاس جا پہنچا جنہوں نے پاکستانی قانون کی روشنی میں اسے غلامی کے طوق سے نجات دلائی۔ بعد ازاں اقبال مسیح اپنے ہی جیسے تقریباً تین ہزار ننھے مزدوروں کی رہائی کا سبب بنا۔ دنیا کو خبر ہوئی تو اقبال، جو گیارہ سال کی عمر میں بھی چار فٹ سے کم قد کا تھا، کی دھوم مچ گئی۔ اسے عالمی ریبوک یوتھ ان ایکشن ایوارڈ سے نوازا گیا جس کے تحت سالانہ پندرہ ہزار امریکی ڈالر کی تعلیمی سکالر شپ دی گئی جبکہ برینڈیز یونیورسٹی نے اقبال کو کالج کی عمر تک پہنچنے پر مفت تعلیم دینے کا اعلان کیا۔ بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی عالمی تنظیموں نے اس مجاہد کو پہلے سویڈن اور اس کے بعد امریکا میں اسکول کے بچوں سے بات چیت کرنے کے لیے بلایا جہاں مقامی سکولوں کے طالب علموں نے اپنے جیب خرچ سے ایک فنڈ قائم کیا جو آج بھی پاکستان میں بچوں کے بیس سکول چلا رہا ہے۔ اسی دوران اقبال نے دو سالوں میں چار سال کے برابر تعلیم حاصل کی حالانکہ وہ اپنے ہم عمر بچوں سے بہت ہی چھوٹا دکھائی دیتا تھا مگر اس کا جذبہ بہت بلند تھا۔ سال 1995 میں اقبال امریکا سے واپس اپنے گاؤں رکھ باؤلی پہنچا۔ 16 اپریل کو جب وہ سائیکل چلا رہا تھا تو نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے اقبال کی زندگی ختم کر ڈالی۔ یہ گناہ کن ظالموں کے ہاتھوں سرزد ہوا آج تک کوئی نہیں جان پایا۔ اقبال کی موت کے بعد مقامی نوجوانوں نے کینیڈا میں فری دی چلڈرن نامی تنظیم کی داغ بیل ڈالی جبکہ اقبال سے منسوب چلڈرن فاؤنڈیشن کا بھی آغاز کیا گیا جو جبری مزدوری کرنے والے بچوں کو علم کی روشنی کی طرف لانے کے لیے کام کرتی ہے۔ سال 2009 میں امریکی کانگرس نے سالانہ اقبال مسیح ایوارڈ کا آغاز کیا جو دنیا بھر میں بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے افراد میں سے ہر سال کسی ایک کو دیا جاتا ہے۔ سال 2014 میں جب بھارتی شہری کیلاش ستیارتھی کو پاکستان سے تعلق رکھنے والی ملالہ یوسفزئی کے ہمراہ نوبیل امن انعام سے نوازا گیا تو انہوں نے بھی اپنی تقریر میں اقبال مسیح کو خراج عقیدت پیش کیا۔ اس کا تذکرہ اطالوی مصنف فرانسسکو ڈی اڈامو کے ناول میں بھی موجود ہے۔

Back to top button