‘مجھے کیوں نکالا’ سے ‘اگر مجھے قتل کر دیا گیا’ تک کی کہانی


سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی نواز شریف بارے لیک ہونے والی آڈیو ٹیپ پر تبصرہ کرتے ہوئے معروف اینکر پرسن اور صحافی عاصمہ شیرازی نے کہا ہے کہ نواز شریف کی جانب سے ‘مجھے کیوں نکالا’ کا مقدمہ پیش کرنے سے کئی دہائیاں پہلے ہی سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی جیل میں لکھی گئی مشہور زمانہ کتاب میں یہ مقدمہ پیش کردیا تھا۔ لیکن افسوس کہ تاریخ کی عدالت میں ذوالفقار علی بھٹو کا مقدمہ آج بھی انصاف کا متقاضی ہے۔
بی بی سی کے لئے لکھے گئے اپنی تازہ سیاسی تجزیے میں عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ کتنے ماہ و سال بیت گئے، وطن عزیز سات دہائیاں گزار چکا ہے، لیکن پیچھے مُڑ کر دیکھیں تو آج بھی وہی مقام ہے جہاں سے آغاز سفر ہوا، نشان منزل آج بھی دور ہے، زادِ راہ بھی موجود نہیں اور زادِ راہ کی شاید پرواہ بھی نہیں۔ وہ بستی ہیں کہ ان دنوں پھر سیاسی مقدمات اور آڈیو ویڈیو ’ثبوتوں‘ کا چرچا ہے۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے منسوب آڈیو جس میں مریم نواز اور نواز شریف کو دی جانے والی سزاؤں کا مبینہ تذکرہ ہو رہا ہے ’صوتی ثبوت‘ کے ساتھ مارکیٹ میں آ چکی ہے۔ اب اس کا نواز شریف کے مقدمے پر اثر پڑتا ہے یا نہیں مگر صاف نظر آ رہا ہے کہ عدالت سے زیادہ مقدمہ عوام کی رائے کے لیے لڑا جا رہا ہے۔
عاصمہ کہتی ہیں کہ حسب توقع اس آڈیو کی سچائی سے سابق چیف جسٹس انکاری ہیں لہذا کئی سوال جواب طلب ہیں۔ حقیقت کیا ہے، قطع نظر اسکے، نواز اور مریم کے خلاف مقدمات کو جس تیزی سے شروع کیا گیا اور جس پھرتی سے الیکشن 2018 سے پہلے انجام کو پہنچایا گیا، وہ سب کے سامنے ہے۔ اب آڈیو اور وڈیو ٹیپس کے ذریعے ان واقعات کے اصل محرکات سامنے لائے جائیں رہے ہیں۔ لیکن بد قسمتی سے انصاف کے کٹہرے میں فقط سیاست ہی سیاست ہے۔
عاصمہ شیرازی یاد دلاتی ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں ۔کئی عوامی راہنماؤں کو اداروں کی جانب سے بنائے گے سیاسی مقدمات کا سامنا کرنا پڑا، تاریخ کے کٹہرے میں کبھی بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کو سزائیں دلوانے کے لیے جسٹس قیوم کی ٹیپ منظر عام پر آئی اور کبھی سیف الرحمن کی۔ اسی طرح تاریخ کی عدالت میں ذوالفقار علی بھٹو کے جوڈیشل مرڈر کا مقدمہ آج بھی انصاف کا متقاضی ہے۔ لیکن تاریخ اور سیاست و صحافت کے طالبعلموں کو ذوالفقار علی بھٹو کی کتاب ’اگر مجھے قتل کر دیا گیا‘ ضرور پڑھنی چاہیے۔ کتاب کیا ہے بھٹو صاحب کا ضیاء دور میں خود پر لگائے گئے الزامات کا مدلل جواب ہے۔ اس تحریر میں ذوالفقار علی بھٹو سے اُن کے لب و لہجے پر اختلاف ہو سکتا ہے مگر حقائق کو جھٹلانا ناممکن ہے۔
ڈھائی سو سے زائد صفحوں پر لکھی تحریر اس ملک کے نظام کا نوحہ ہے۔ کس طرح سنہ 1977 کے انتخابات میں دھاندلی کو وجہ بنا کر ملک میں تحریک کا آغاز کیا گیا، کس طرح مُلا ملٹری اتحاد سویلین اور منتخب حکومت کے خلاف کار فرما ہوا، کس طرح مذہب کارڈ اور نظام مصطفیٰ کا نام لے کر سیاست کی گئی، کس طرح جیل میں قید وزیراعظم پر الزامات لگا کر یک طرفہ مہم چلائی گئی، جس کا جواب ذوالفقار علی بھٹو نے ان صفحات پر دیا جسے بعد میں کتاب کی شکل دے دی گئی۔
عاصمہ بتاتی ہیں کہ اس کتاب میں سول ملٹری تعلقات، اندر کا سرطان کے عنوان سے لکھے گئے ابواب انتہائی اہم ہیں۔ مارشلاؤں اور آئین کی مسلسل پامالی کے تناظر میں مملکت پاکستان کے دو لخت ہونے اور اندرونی بحران سے متعلق تفصیلات موجود ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اسی کتاب میں خارجہ تعلقات سے متعلق بھی تفصیلی لکھا ہے۔ وہی انتخابات، دھاندلی، منتخب حکومت کے خلاف محلاتی سازشیں، وہی سول ملٹری تعلقات کی کہانی۔۔ یوں سمجھیے ذوالفقار علی بھٹو نے ’مجھے کیوں نکالا‘ کا مقدمہ اس اہم دستاویز کے ذریعے عوام کے سامنے رکھ دیا۔ بھٹو نے اپنی کردار کُشی اور اپنے ساتھ ہونے والی عدالتی ناانصافی کا مقدمہ تاریخ کے کٹہرے میں پیش کیا، تاریخ کے اس اہم ترین مقدمے میں قلم گواہ ہے اور ماضی کے پاس سوائے پچھتاوے کے کچھ نہیں۔
ہم مسلمان دنیا بھر میں جوتے کیوں کھا رہے ہیں؟

بقول عاصمہ، ذوالفقار علی بھٹو پربدعنوانی کا کوئی الزام نہ تھا مگر ضیا الحق کے دور میں اُن کی ذات پر لگے الزامات کا جواب جس طرح ذوالفقار علی بھٹو نے دیا اُسے فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ پڑھنے والے خود دل پر ہاتھ رکھ کر اس کے سچا ہونے کی یقین دہانی کرتے ہیں، نہ کسی عدالت کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی وکیل چاہیے۔ وہ کہتی ہیں کہ وقت بدل گیا ہے مگر نہ حالات بدلے ہیں اور نہ ہی واقعات۔۔۔ ہاں اشخاص ضرور بدل گئے ہیں۔ تاریخ دیرائی جا رہی یے اور تاریخ کی غلط سائڈ پر کھڑے ہوئے درست سمت آنے کی کوشش کر رہے ہیں، خود طاقتور ایوانوں کا حصہ بن چکے ہیں، محلاتی سازشیں کرنے والے سازشوں کا شکار ہو رہے ہیں، آہنی ہاتھ آئین کو مگر گرفت میں آج بھی لیے ہوئے ہیں۔ تاریخ کے اس باب میں ذوالفقار علی بھٹو سے ہوئی زیادتی اور ظلم کی گواہی خود جج صاحبان نے دی۔ ہاں اب وقت بدل گیا ہے۔ انصاف کے حصول کے لیے شاید آڈیو ویڈیو کا سہارا لینا پڑتا ہے مگر یاد رہے تاریخ کا انصاف کڑا بھی ہے اور دیرپا بھی۔

Back to top button