اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل تب ہو گی جب نواز دشمنی چھوڑے گی

طاقتور فوجی اسٹیبلشمنٹ کا مسلسل اصرار ہے کہ وہ غیر سیاسی اور نیوٹرل ہو کر اپنے آئینی دائرے میں واپس لوٹ چکی ہے، لیکن اس فوجی دعوے کی سب سے بڑی گواہی تب آئے گی جب ادارے کی جانب سے نواز شریف دشمنی کو خیرباد کہہ دیا جائے گا۔ سچ تو یہی ہے کہ دو پہلوانوں کی کشتی میں ایک پہلوان کے ہاتھ پائوں باندھ دینے والے کو ’نیوٹرل‘ کسی صورت نہیں کہا جا سکتا۔ ان خیالات کا اظہار سینیئر صحافی اور تجزیہ کار حماد غزنوی نے روزنامہ جنگ میں اپنی تازہ تحریر میں کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں یہ درست ہے کہ عمران خان نے اس سے پہلے کوئی الیکشن فوجی اسٹیبلشمنٹ کی بھرپور مدد کے بغیر نہیں جیتا تھا، مگر اب جیت لیا ہے، ضمنی انتخاب ہی سہی، لیکن واضح اکثریت سے جیت لیا ہے، اور وہ بھی پنجاب میں جہاں نواز شریف کی مسلم لیگ 1988 سے کبھی کسی سویلین سیٹ اپ میں ہونے والا انتخاب نہیں ہاری تھی، حتی کہ 2018 کے مشکوک انتخابات میں اور اس کے بعد ہونے والے ضمنی انتخابات میں بھی مسلم لیگ نواز نے پنجاب میں اپنے حریفوں سے زیادہ ووٹ لئے تھے اور پی ٹی آئی سے زیادہ نشستیں جیتی تھیں۔ تو پھر ضمنی الیکشن کے نتائج سے کیا اخذ کیا جائے، کیا 30 سال بعد پنجاب میاں نواز شریف کے رومانس سے نکل رہا ہے؟ کیا عمران خان پنجاب والوں کا نیا رانجھا بننے جا رہا ہے؟

فیض حمید تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات میں شامل

حماد غزنوی کے مطابق اس سارے معاملے کو دیکھنے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں ہوئی، ان بیس نشستوں میں سے تو کوئی بھی مسلم لیگ نون کی نہیں تھی، یعنی پنجاب میں یہ نون کی سب سے کمزور نشستیں تھیں، ان میں سے سات پر تو 2018 میں مسلم لیگ کو امیدوار ہی نہیں ملے تھے، لہٰذا ان ضمنی الیکشن میں تو مسلم لیگ نے پی ٹی آئی کی سیٹیں چھینی ہیں۔ تحریکِ عدم اعتماد کے بعد مرکزی حکومت سنبھالنے والے جانتے تھے کہ عمرسن خان کی جانب سے آئی ایم ایف کے سستھ کیے فے معاہدے کی شرائط پوری کرنا ہوں گی، پٹرول اور بجلی کی قیمتیں بڑھانا ہوں گی، مہنگائی کا طوفان آئے گا، فضا میں عمومی مایوسی پھیلے گی، ووٹر بد دل ہوں گے۔ لیکن سوچ یہ تھی کہ اس کے بعد کی ڈیڑھ سال کی اچھی حکومت سے اس فضا کو بہتر کر لیا جائے گا۔ لیکن اس سب کی نوبت ہی نہیں آئی اور پنجاب میں ضمنی انتخابات نے مسلم لیگ نون کو اپنے نرغے میں لے لیا۔ مسلم لیگ نون ماضی میں کبھی موٹر وے بنا کر اور کبھی بارہ ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کے بعد عوام کی عدالت میں جاتی تھی، یہ پہلی مرتبہ تھا کہ وہی پارٹی ہوشربا مہنگائی کا داغ چہرے پر سجا کر ووٹ مانگنے نکل پڑی اور وہ بھی بھاڑے کے ان ٹٹووں کے لیے جنہیں سیاسی زبان میں لوٹے کہا جاتا ہے۔

بقول حماد غزنوی مہنگائی میں پسے ہوئے عوام ایسی دلیلیں سننے کے موڈ میں نہیں ہوتے کہ یہ مہنگائی پچھلی حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف سے معاہدے کی وجہ سے ہے، اور ہمیں تو آئے ہوئے ابھی تین ماہ ہوئے ہیں۔ بھوک سے بڑی کوئی دلیل نہیں ہوا کرتی! لیکن یہ بھی کیا تماشا ہے کہ انتخابات میں ’امپورٹڈ حکومت‘ کو آئی ایم ایف نے شکست دے دی، یعنی جو غیر ملکی طاقتیں مبینہ طور پر شہباز حکومت کو برسراقتدار لائی ہیں وہ تین ماہ بعد بھی اسے آئی ایم ایف سے قرضے کی قسط جاری نہیں کروا پائیں۔ حماد کا کہنا یے کہ مسلم لیگ نون نے ایک معاہدے کے تحت ہی ٹی آئی کے تمام منحرف ارکان کو اپنے ٹکٹ دیئے، اگر یہ امیدوار جیت جاتے تو کیا اگلے عام انتخابات میں بھی پارٹی انہیں ٹکٹ دیتی؟ یہ سوال حلقے کی سیاست کرنے والے نون کے سابق ٹکٹ ہولڈرز کےلئے باعثِ تشویش تھا، یوں جب مسلم لیگ کے علاقائی رہنما غیر متحرک ہوئے تو ان سے منسلک کئی دھڑے بھی سرد ہو گئے، جس سے لیگی ووٹر مایوس اور غیر متحرک ہو گیا۔ جب کہ دوسری طرف خان صاحب نے کامیابی سے اپنے ووٹر میں نفرت اور ’انتقام کا جزبہ‘ گھسیڑا جو اسے پولنگ بوتھ تک لے گیا۔

حماد کے بقول سچ تو یہ ہے کہ عمران خان کی چھابڑی ہاتھوں ہاتھ بکنے والے سودے سے لدی ہے، اینٹی امریکہ، اینٹی اسٹیبلشمنٹ، مذہبی کارڈ یہ سب وہ اجناس ہیں جو ہمارے ہاں ہاتھوں ہاتھ بک جاتی ہیں۔ لیکن فوجی اسٹیبلشمنٹ کیلئے یہ نکتہ بھی غور طلب ہے کہ ہمارے پاکستانی عوام ووٹ کو عزت دو اور میر جعفر، میر صادق‘ جیسےنعروں پر وجد میں کیوں آ جاتے ہیں؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کے سیاسی فوائد تو حاصل ہوئے لیکن اس موقف کے خطرات سے وہ یک سر محفوظ رہے گئے، وہ جسے چاہیں ’غدار‘ کہیں، عدالتوں کے فیصلے مانیں نہ مانیں، کوئی پوچھنے والا نہیں۔ جب کہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ لیڈر تو اقتدار سے نکل کر پھانسی گھاٹ جاتا ہے یا جیل میں سڑتا ہے، اور یا جلا وطن کر دیا جاتا ہے۔ لہٰذا ووٹر کو یہ پیغام دیا گیاکہ اداروں میں عمران کی حمایت موجود ہے، وہ نواز شریف کی طرح زیرِ عتاب نہیں ہیں، وہ دوبارہ بھی اقتدار میں آ سکتے ہیں۔ ویسے بھی سچ یہی ہے کہ عمران کا اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے سے دور پار کا کوئی تعلق نہیں، وہ تو ان کی حمایت ختم ہونے پر برہم ہیں اور گالیاں بھی اس لئے دے رہے ہیں کہ ان کی حمایت بحال ہو جائے۔ بہرحال، یہ درست ہے کہ مسلم لیگ نون اپنا ’ووٹ کو عزت دو‘ کا پر کشش بیانیہ دریا برد کر کے الیکشن لڑنے نکلی تھی، اب ذرا اس سیاسی منظر نامے کا احاطہ کیجئے جس میں یہ انتخاب منعقد ہوئے۔ ملک میں دو بڑی پارٹیاں ہیں، ایک کے لیڈر عمران خان ہیں، دوسری جماعت مسلم لیگ نون ہے، اس کا لیڈر کون ہے؟ نواز شریف؟ مگر وہ تو جلا وطن ہیں، ان کی تو شکل دکھانے پر بھی پابندی ہے، وہ کیسے عمران خان کی جارحانہ سیاست کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ نواز شریف کی سیاسی جانشین ان کی بیٹی مریم نواز ہیں، مگر انہیں الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں ہے۔ باقی بچے شہباز شریف اور حمزہ شہباز۔ یعنی تصویر کچھ یوں بنتی ہے کہ ووٹ نواز شریف کا، جلسے مریم نواز کے، اور وزیرِ اعظم بنیں گے شہباز شریف، جن میں بطور منتظم درجنوں خوبیاں ہیں، مگر عوامی سیاست ان کے مزاج کا حصہ کبھی بھی نہیں رہی۔ پارٹی قیادت کے حوالے سے مسلم لیگی ووٹر کا ذہن یقیناً دھندلایا ہوا ہے۔

حماد غزنوی کہتے ہیں کہ اگر ایسے میں اسٹیبلشمنٹ کا پھر بھی اصرار ہے کہ وہ غیر سیاسی اور نیوٹرل ہو کر اپنے آئینی کردار کی طرف لوٹ چکی ہے تو امید ہے کہ اب دل پھر طوافِ کوئے ملامت کو نہیں جائے گا، مگر اس دعویٰ کی سب سے بڑی گواہی تب آئے گی جب فوج کی جانب سے نواز شریف دشمنی کو خیرباد کہہ دیا جائے گا۔ ویسے بھی دو پہلوانوں کی کشتی میں ایک پہلوان کے ہاتھ پائوں باندھ دینے والے کو کسی صورت ’نیوٹرل‘ نہیں کہا جا سکتا۔

Back to top button