پاکستان کے لیے کرپٹ سیاست دان بہتر ہیں یا ایماندار فوجی جرنیل؟

معروف اینکر پرسن اور تجزیہ نکار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں یہ فیصلہ ہی نہیں ہو پا رہا کہ ریاست کو منتخب نمائندوں کے رحم و کرم پر چھوڑا جائے یا نہیں۔ انکے مطابق دنیا بھر کی طرح یہاں بھی فوجی قیادت کی یہی سوچ یے کہ سیاست دان اس قابل نہیں کہ ملک چلا سکیں اور ریاست سنبھال سکیں، لیکن ہم ماضی کے تجربات سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے ’’کرپٹ اور نااہل‘‘ سیاست دان جناح کے پاکستان کو ’ایماندار اور قابل‘‘ جرنیلوں سے بہتر سنبھال اور چلا سکتے ہیں اور ان کے فیصلے زیادہ دانش مندانہ ہوتے ہیں۔ ویسے بھی اب جبکہ فوج پہلے جیسی نہیں رہنا چاہتی تو اسے یہ کڑوا گھونٹ بھی پی لینا چاہیئے اور ایک قدم پیچھے ہٹ کر سیاست دانوں کو ریاست سنبھالنے کا پورا موقع دینا چاہیئے۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ہم پاکستانی کتنا بھی چاہیں کہ فوجی مداخلت کا خاتمہ ہو جائے مگر ایسا ہو نہیں رہا۔ جب آدھے لوگ مداخلت کے خلاف ہوتے ہیں تو کچھ مفاد پرست اسی مداخلت کو ’’میرے یار جیسی ‘‘ قرار دے کر اسے جواز فراہم کر رہے ہوتے ہیں۔ معاملہ کچھ شراب جیسا ہے یعنی یہ یہ چیز ہی ایسی ہے کہ نہ چھوڑی جائے۔ سچ تو یہ ہے کہ دنیا کی ہر چیز بدل گئی مگر صدیوں سے شراب بدلی ہے اور نہ شراب کا نشہ۔ یہ ویسے کی ویسی ہے۔ ہماری 75سالہ تاریخ میں دنیا کی ہر چیز بدل گئی، دنیا کے نظریات بدل گئے، مضبوط سرحدوں کےتصور سے دنیا نرم سرحدوں کے فائدے اٹھانے لگی مگر ہماری فوج ویسے کی ویسی ہے۔ وہی پرانے نظریات ہیں، وہی پرانے خیالات ہیں، کسی زمانے میں مضبوط سرحدیں، مضبوط ملک کی نشانی ہوا کرتی تھیں آج کل نرم سرحدیں ملک کو معاشی طور پر مضبوط بناتی ہیں۔ہماری سرحد بھارت کی طرف ہو، ایران سے ملتی ہو یا افغانستان سے ہر طرف مسائل ہی مسائل ہیں، سرحدیں گرم سے سرد ہوں گی تو ہن برسے گا ، یورپ میں ایسا ہو چکا ہے آج کی دنیا معیشت کی ہے، دفاع کے مقابلوں کے دن گئے اب معیشت کے مقابلے کا دَور ہے۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ فوج اب بھی سب ملکی اداروں سے طاقتور ہے۔ پینٹاگون اب بھی طاقت میں ہے اور سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے بھی کہیں زیادہ طاقتور ہے، لیکن تہذیب اور تجربے سے مہذب جمہوری ممالک میں فوج نے خود ہی فیصلوں کا اختیار منتخب نمائندوں کو دینے کا فیصلہ کیا ہے اور آہستہ آہستہ وہ سیاست سے پیچھے ہٹ کر دفاع اور ملکی سلامتی کی پالیسیوں تک محدود ہوگئے ہیں۔ پاکستان میں بھی فوج دوسرے تمام اداروں سے ذیادہ مضبوط اور ڈسپلنڈ ہے لیکن یہاں یہ فیصلہ نہیں ہو پا رہا کہ ریاست کو منتخب نمائندوں کے رحم و کرم پر چھوڑا جائے یا نہیں۔ سہیل کہتے ہیں کہ میری رائے میں فوج کو اب بیک سیٹ پر چلے جانا چاہیے اور ڈرائیونگ سیٹ منتخب سیاست دانوں کے حوالے کر دینی چاہیے۔ فوج کو چاہیے کہ پیچھے بیٹھ کر سیاست دانوں کی مدد کرے جیسا کہ ایس آئی ایف سی کے معاملے میں کی جا رہی ہے، اگرچہ فوج کے کئی لوگ یہ دعوے کر رہے ہیں کہ اب وہ مداخلت کے حق میں نہیں ہیں اور نہ ہی ویسی مداخلت ہو رہی ہے جیسی ماضی میں ہوتی تھی مگر حکومت، اپوزیشن اور عوام تینوں میں تاثر یہی پایا جاتا ہے کہ اب بھی ملک کا نظام فوج ہی چلارہی ہے۔ جب تک خارجہ پالیسی اور داخلی پالیسی میں سیاست دانوں کے فیصلوں میں آزادانہ رنگ نظر آنا شروع نہیں ہوتا اس وقت تک ’’ویسے کا ویسا‘‘ کا تاثر ختم نہیں ہوگا۔

شہبازحکومت کا پارلیمنٹ میں دوتہائی اکثریت کھونے کاامکان

 

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ دوسری طرف دیکھئے تو ہمارے محبوب اہل سیاست بھی فوجی مے کے رسیا ہو چکے ہیں۔ غالب اور فیض کا پسندیدہ تو باغیوں کا شہر خرابات تھا لیکن ہمارے اہل سیاست کا پسندیدہ ڈیرہ فوج کا شہر خرابات ہے، وہاں کی مے ان کی پسندیدہ ہے۔ اگر انہیں فوج اقتدار دلوا دے تو یہ نشے میں مدہوش ہو جاتے ہیں، کسی زمانے میں کپتان اس مے خانے کے مستقل مے خوار تھے، موصوف کبھی ساقی کی تعریف کرتے تھے اور کبھی مے خانے کی۔ شہر خرابات نے انہیں اقتدار کی مے کا ایسا جام پلایا کہ اپوزیشن، میڈیا اور عدلیہ کو تاراج کرنے پر تل گئے مگر پھر ساقی نے مے خانے کا دروازہ ان پر بند کردیا اور نونیوں کو چور دروازے سے مے خانے کی جھلک دکھانا شروع کردی۔ وہ جو ووٹ کو عزت دو کی نعرے بازی کرتے تھے پھر سے فوج کے مے خانے کے اسیر ہو گئے ۔ سہیل کہتے ہیں کہ آج کل کے وزیر اعظم شہباز شریف مے نوش نہ ہونے کے باوجود فوجی شراب ِطہور سے فیض یاب ہو رہے ہیں ۔یہ دائرہ 75 سال سے اسی طرح چل رہا ہے۔ مے خانے میں ایک کو بلایا اور دوسرے کو دھتکارا جاتا ہے اور یہ سب ’’ویسے کا ویسا ہے‘‘۔

یہاں جہانِ رنگ و بو کی ہر شے بدل گئی مگر ہماری فوج نہیں بدلی۔ یہ ویسے کی ویسی ہے لہازس اسے کیسے بدلا جائے؟ اسے بدلنا ہے تو اسے اہل سیاست کو مے خانے کی لت سے نکلنا چاہیے، یہ گیٹ نمبر چار سے مے خانے کا جو راستہ ہے وہ بند کردیا جائے۔ دنیا میں تو تیزی سے یہ فوجی مے خانے بند ہوئے ہیں۔ فوج کو بھی اسے بند کر کے معاشی ترقی کا شربت تیار کرنے کافیصلہ کرنا چاہیے۔ پاکستان اس وقت ایک اہم موڑ پر ہے اس موڑ پر ہمیں اہم ترین فیصلےکرنے ہیں، معاشی مقابلہ کرکے زندہ کیسے رہنا ہے ؟ سیاسی محاذ آرائی سے نکل کر استحکام کی طرف کیسے جانا ہے؟ فوج کا کردار اور منتخب نمائندوں کی اہمیت کا تعین ہونا چاہیے؟ تاریخ تو ہمیں یہ بتاتی ہے کہ دنیا بھر میں فوج خود پیچھے ہٹی ہے، اسے کوئی طاقت سے پیچھے نہیں ہٹا سکتا۔ فوج نے شعور کو استعمال کرکے خود پچھلی نشست سنبھالی ہے اور بدلتی دنیا کے ساتھ بدلنے کا فیصلہ کیا ہے۔ امید ہے تضادستان نمائندوں پاکستان میں بھی شعور ہی یہ تبدیلی لائے گا۔

Back to top button