کیا شہباز حکومت واقعی اپوزیشن سے معاملات بہتر کرنا چاہتی ہے؟

ملک کو دہشت گردی، عدم استحکام، معاشی و سیاسی دباؤ جیسے مسائل کا سامنا ہے اور وفاقی حکومت متعدد بار اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف کو مذاکرات کی دعوت دے چکی ہے۔تاہم پی ٹی آئی مسلسل حکومتی پیشکشوں کو رد کرتے ہوئے صرف اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کرنے پر مصر ہے،۔ اس کے باوجود پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر ایک بار پھر مفاہمت، مذاکرات، مل کر چلنے اور ملکی مسائل کے حل کے لیے سب کو سر جوڑ کر بیٹھنے کی باتیں سننے کو مل رہی ہیں۔بدھ کو پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے ایک بار پھر حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت تحریک انصاف کو مذاکرات کی دعوت دے دی ہے جبکہ اس پیشکش کے جواب میں تحریک انصاف نے حکومت کو مذاکرات کے لیے بانی پی ٹی آئی کی رہائی سمیت شرائط کی ایک لمبی فہرست تھما دی اور اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے کہا ہے کہ’میں فارم 47 کے وزیراعظم کو کہنا چاہتا ہوں کہ بات تب ہو گی جب میرے وزیراعظم عمران خان صاحب باہر آئیں گے، بات تب ہو گی جب میرے 180 نشستوں پر میرے لوگ واپس آئیں گے۔‘ یوں عمر ایوب نے تحریک انصاف کو مینڈیٹ کی واپسی کا بھی مطالبہ دہرایا دیا۔

ایسے میں جہاں ایک جانب وزیر اعظم شہباز شریف پی ٹی آئی کو ایک بار پھر مذاکرات کی دعوت دے رہے ہیں وہیں ان کے سیاسی امور کے مشیر رانا ثناء اللہ پی ٹی آئی کے بانی کو جیل میں رکھنے کی بات کر رہے ہیں۔جبکہ پی ٹی آئی کا پہلا مطالبہ ہی عمران خان کی رہائی اور ان کے مینڈیٹ کو تسلیم کیا جانا ہے۔ اس تمام صورتحال میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام کے درمیان بات چیت کی راہ نکل بھی سکتی ہے؟

ٹی 20 ورلڈ کپ، بھارت، انگلینڈ کو ہرا کر فائنل میں پہنچ گیا

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار حامد میرکے مطابق نہ وزیر اعظم اپنے مذاکرات کی دعوت میں سنجیدہ ہیں اور نہ ہی تحریک انصاف اس طرح مذاکرات کی حامی ہے۔ان کے مطابق عمر ایوب نے نہ صرف عمران خان اور سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے بلکہ انھوں نے 125 نشستوں کی واپسی کا بھی مطالبہ کیا ہے۔حامد میر کہتے ہیں کہ ’اب وزیر اعظم تحریک انصاف کو یہ نشستیں دینے سے رہے تو پھر ایسے میں مذاکرات بھی محض ایک سیاسی نعرہ ہی ہے۔‘ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کے پاس پی ٹی آئی کو مذاکرات کے نام پر آفر کرنے کیلئے کچھ بھی نہیں ہے تو ایسی صورت میں مذاکرات کا نتیجہ خیز ہونا ناممکن ہے۔

دوسری جانب تجزیہ کار ضیغم خـان کے مطابق آگے بڑھنے کا رستہ تو یہی ہے کہ ’نو مئی کے واقعات کو قانونی یا سیاسی طور پر نمٹایا جائے۔‘ مگر ان کی رائے میں ابھی دونوں آپشن پر ہی کام آگے نہیں بڑھ رہا ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی سے زیادہ حکومت کے لیے اس وقت مذاکرات کی طرف جانا اہم ہے ورنہ ان کے لیے مشکلات بڑھ سکتی ہیں اور ایک ایسے وقت میں جب ملک سیاسی، عدالتی اور معاشی بحران کا شکار ہے مذاکرات کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے، اگر فریقین کے درمیان تلخی ہے تو کوئی تیسرا فریق یا جماعت ان کے معاملات کو بہتر بنانے میں کردار ادا کرے۔ایک سوال کے جواب میں ضیغم خان کا کہنا تھا کہ ’حکومت بھی یہی چاہتی ہے اور اسٹیبلشمنٹ بھی یہی چاہتی ہے کہ امن ہو، سکون اور سیاسی استحکام کے ماحول میں باہر سے سرمایہ لے کر آئیں۔‘ضیغم خان کا کہنا ہے کہ ’ایک اچھی حکومت تو یہ کوشش کرتی ہے کہ سیاسی درجہ حرارت زیادہ نہ بڑھے۔ یہ کام عمران خان اپنے دور حکومت میں نہیں کر سکے تھے۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’حکومت پیشکش تو کر رہی ہے۔ انھیں معلوم ہے کہ پی ٹی آئی اس طرف نہیں آئے گی۔ وہ چاہتی ہے کہ پی ٹی آئی اسی طرح رگڑا کھاتی رہے۔ ابھی پی ٹی آئی وہی کر رہی ہے جو حکومت چاہتی ہے۔‘

ضیغم خان کے مطابق پی ٹی آئی کا پورا بیانیہ ان جماعتوں کے رد کرنے پر کھڑا ہے۔ ’پی ٹی آئی یہ سمجھتی ہے کہ حکومت سے مذاکرات کرنے سے انھیں سیاسی نقصان ہوگا۔ اس لئے اسے صرف اسٹیبلشمنٹ سے ہی بات کرنی ہے۔‘ایک سوال کے جواب میں ضیغم خان نے کہا کہ ’اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات والی بات میں تضادات ضرور ہیں مگر ماضی میں بھی مذاکرات اسٹیبلشمنٹ سے ہی ہوئے ہیں۔‘ان کی رائے میں ابھی اسٹیبلشمنٹ مذاکرات کی حامی نہیں ہے۔ ’ابھی اسٹیبشلمنٹ نو مئی کے واقعات میں قید کیے جانے والوں کو ڈھیل دینے اور نئے انتخابات کے لیے تیار دکھائی نہیں دیتی ہے۔‘

تاہم سینئر صحافی اور تجزیہ کار عرفان صدیقی کے مطابق پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنے پر بضد ہے اور وہ کسی ڈائیلاگ کے دائرے میں آ ہی نہیں رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کہانی عمران خان سے شروع ہونی چاہیے۔ ان کی ساری مذاکراتی فکر اس طرف گھومتی ہے۔‘پی ٹی آئی جس طرح کے مطالبات کر رہی ہے وہ یہ سمجھتے کہ اسٹیبلشمنٹ ہی پورا کر سکتی ہے۔ عرفان صدیقی کے مطابق ’پی ٹی آئی والے یہ خیرات مانگنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے دروازے پر بیٹھے ہوئے ہیں۔‘عرفان صدیقی کے مطابق تمام محب وطن جماعتیں ہی اس ڈائیلاگ کی حامی ہیں۔ سب یہ چاہتے ہیں کہ سب مل بیٹھیں اور کم سے کم کسی ایک نکتے پر متفق ہو جائیں۔ ہم بھی چاہتے ہیں کہ مل جل کر ایک رستہ نکالا جائے۔لیکن پی ٹی آئی والے صرف عمران خان کیلئے این آر او کے متقاضی ہیں جو شہباز حکومت دینے کو بالکل تیار نہیں ہے۔

Back to top button