مخصوص نشستیں نظر ثانی درخواستیں، عمراندار ججز کا فوری سماعت سے انکار

سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی نے مخصوص نشستوں بارے نظر ثانی درخواستیں فوری مقرر نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے درخواستوں کی سماعت گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد مقرر کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔

سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے 18 جولائی کو ہونے والے 17 ویں اجلاس کے منٹس جاری کر دئیے۔دستاویز کے مطابق مخصوص نشستیں کے فیصلے پر نظرثانی درخواستیں سماعت کیلئے مقرر کرنے کا معاملہ زیر بحث آیا، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے کہا کہ نظرثانی صرف وہی 13 ججز سن سکتے ہیں جنہوں نے مرکزی کیس سنا، کیس کا تفصیلی فیصلہ بھی نہیں جاری ہوا۔دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ نظرثانی درخواستوں پر سماعت گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد ہوگی۔ججز کمیٹی نے دو ایک کی اکثریت سے نظرثانی درخواستیں گرمیوں کی تعطیلات کے بعد مقرر کرنے کا فیصلہ کیا۔

دستاویز کے مطابق چیف جسٹس پاکستان نے نظرثانی درخواستیں چھٹیوں کے بعد مقرر کرنے کے فیصلے سے اختلاف کیا جبکہ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے فوری نظرثانی درخواستیں مقرر کرنے کے خلاف رائے دی۔چیف جسٹس پاکستان نے مؤقف اختیار کیا کہ لوگوں کے آئینی حقوق ہماری چھٹیوں سے زیادہ اہم ہیں، ناانصافی ہوگی اگر اپیلوں کو جلد سماعت کیلئے مقرر نہ کیا گیا۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ رولز کے مطابق عدالتی سال ستمبر کے دوسرے پیر کو شروع ہوگا، چیف جسٹس نے 15 جولائی سے عدالتی چھٹیوں کا اعلان کیا، چھٹیاں کسی رولز کے مطابق منسوخ نہیں کی جاسکتیں اور کمیٹی یاچیف جسٹس عدالتی چھٹیاں منسوخ نہیں کرسکتے۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق درخواست پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن اور پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے مخصوص نشستیں تحریک انصاف کو دینے کا حکم دے دیا۔13 رکنی فل کورٹ بینچ کے 5-8 کی اکثریت کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ تحریک انصاف سیاسی جماعت تھی اور ہے، پی ٹی آئی خواتین اور اقلیتی نشستوں کی حقدار ہے، انتخابی نشان نہ ملنے سے کسی سیاسی جماعت کا انتخابات میں حصہ لینے کا حق ختم نہیں ہوتا۔فیصلے میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی 15 دن میں مخصوص نشستوں کے لیے اپنی فہرست جمع کرائے، 80 میں سے 39 ایم این ایز پی ٹی آئی سے وابستگی ظاہر کر چکے ہیں، باقی اکتالیس ارکان پندرہ دن میں پارٹی وابستگی کا حلف نامہ دیں۔سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف ن لیگ اور ارکان اسمبلی نے نظرثانی درخواستیں دائر کی ہیں۔

 

Back to top button