عمران خان جنگل کے بادشاہ سے صلح کے لیے منتوں پر کیوں اتر ائے

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار نصرت جاوید نے کہا ہے کہ اب اچانک فوج کو ’نیوٹرل‘ ہونے کا مشورہ دینے والے عمران خان چند ہی دن قبل تک پھیپھڑوں کا پورا زور لگا کر اصرار کیا کرتے تھے کہ حق اور ناحق کے مابین معرکوں کے دوران فقط جانور ہی نیوٹرل رہا کرتے ہیں۔ اڈیالہ جیل میں قید بانی تحریک انصاف اب ماضی کے گلے شکوے بھلاکر ’جنگل کے بادشاہ‘ سے صلح پر امادہ ہیں اور مسلسل منت سماجت کر رہے ہیں۔ ان کے رویے سے شہباز حکومت کے نمائندوں کا فکر مند ہونا فطری تھا۔ ظاہر ہے کہ اگر فوجی قیادت کی جانب سے عمران خان کو معافی مل جائے تو حکومت مشکل میں پڑ جائے گی.

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں نصرت جاوید کہتے ہیں کہ رانا ثنا اللہ نے ایک ٹی وی انٹرویو میں ایسی ہی فکر مندی کا اظہار کیا۔ ان کے بیان کے بعد میرے کئی ساتھی بھی محلاتی سازشوں کے ایک اور دور کی سن گن لگانے میں مصروف ہو گئے۔ شہباز حکومت کے خلاف ممکنہ طورپر لگائی ایسی سازش کی تلاش شروع ہو گئی جو 2021ء کے برس کے آخری تین مہینوں میں عمران حکومت کے خلاف لگائی گئی تھی۔ گزشتہ دو دنوں سے مجھے بھی ٹیلی فون کالوں کے ذریعے چند دوست اس حساس موضوع پر سوچنے اور اندر کی بات ڈھونڈنے کو اکساتے رہے۔ مگر میرا من ایسے کسی ممکنہ فیصلے کی جانب مائل نہیں ہوا۔

نصرت جاوید کہتے ہیں کہ عمر ایوب خان اور علیمہ خان صاحبہ کی جانب سے صلح جویانہ پیغامات کھلے عام سامنے آنے کے بعد میں یہ سوچنے کو مجبور ہو گیا کہ تحریک انصاف سڑکوں پر احتجاج کے نام پر کوئی تگڑا شو نہیں لگائے گی۔ اڈیالہ جیل سے آئے صلح جویانہ پیغامات نے احتجاجی تحریک کے پر ممکنہ پرواز سے قبل ہی کاٹ دیے۔ ایسے میں میرے سمیت تمام میڈیا کی توجہ ازخود جماعت اسلامی کے دھرنے کی جانب مبذول ہوگئی۔ منزل اس کی اسلام آباد کا ڈی چوک تھا۔ 1970ء کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں لاہور احتجاجی تحریکوں کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ ایوب خان کی حکومت ختم ہوجانے کے بعد بھی جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی اس شہر کی سڑکوں اور بازاروں میں ’نظریاتی جنگیں‘ لڑتے رہے۔ بھٹو حکومت کے قیام کے بعد ’بنگلہ دیش نامنظور‘ کے علاوہ بھی کئی تحاریک کو سختی سے کچلنا پڑا۔

لیکن بقول نصرت جاوید جب 7 مارچ 1977ء کے انتخابات کے بعد دھاندلی کے خلاف تحریک چلی تو اسے ریاستی قوت سے قابو میں لانا ناممکن ہوگیا۔ میں اس تحریک سے دو برس قبل لاہور سے اسلام آباد منتقل ہوچکا تھا۔ بی بی سی ریڈیو کے ذریعے بھٹو حکومت کے خلاف تحریک کی خبریں سنتا تو جی اداس ہو جاتا۔ اسلام آباد بقیہ پاکستان سے کٹا خاموش وبے جان جزیرہ محسوس ہوتا۔ فقط ’ایکشن‘ دیکھنے کی تمنا میں بھٹو حکومت کے خلاف مارچ 1977ء سے جولائی 1977ء تک جاری رہی تحریک کے دوران ازخود لاہور اور کراچی جیسے شہروں میں جا کر سیاسی موڈ جاننے کی کوشش کرتا۔ ان دنوں دریافت یہ بھی ہوا کہ کراچی سے پاکستان کا دارالحکومت اسلام آباد منتقل کرنے کا فیصلہ یہ سوچ کر بھی ہوا تھا کہ ریاست کو عوام کے برپا کیے شورشرابے سے محفوظ رکھا جائے۔ کراچی میں احتجاجی جلوس بآسانی وزیر اعظم کے دفتر کے باہر پہنچ جایا کرتے تھے اور یوں حکومتی نظام ان جلوسوں کی وجہ سے اکثر مفلوج ہو جاتا۔ تاہم اج کئی دہائیوں بعد یہ محسوس ہوتا ہے کہ اسلام اباد کو وفاقی دارالحکومت بناتے ہوئے دھرنوں اور احتجاجی مظاہروں سے محفوظ رکھنے کا جو جواز دیا گیا تھا وہ ختم ہو چکا ہے.

Back to top button