کیا جسٹس منصور شاہ پارلیمنٹ کو سپریم تسلیم کریں گے یا نہیں؟

معروف لکھاری اور تجزیہ کار سینٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ متنازعہ عدالتی فیصلوں پر عمل درامد کے بھاشن دینے والے جسٹس منصور علی شاہ اور ان جیسے دیگر ججز کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ پارلیمنٹ ملک کا سپریم ترین ادارہ ہے اور عدلیہ کو اپنی مرضی کے مطابق دوبارہ آئین تحریر کرنے کا اختیار نہیں ہے۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں عرفان صدیقی بتاتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے سب سے سینئر جج، عزت مآب جسٹس منصور علی شاہ نے فرمایا ہے کہ ’’عدالت کے فیصلوں پر عمل درآمد لازمی تقاضا ہے اور انتظامیہ کے پاس اِس کے سوا کوئی’چوائس‘ نہیں۔ سپریم کورٹ کو یہ اتھارٹی آئین نے دی ہے…‘‘ عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ جی چاہتا ہے کہ جج صاحب کے اِن ارشادات پر کچھ لکھوں لیکن میری توجہ فی الحال برطانیہ کی اُن عدالتوں کی طرف ہے جو تعطیلات پر جانے کے بجائے چوبیس گھنٹے کھلی ہیں اور ہمارے برعکس ایک مختلف انداز کی تاریخ لکھ رہی ہیں۔ جج صاحب کی بارگاہِ عدل میں کھڑے دست بستہ سائل کے طور پر صرف یہ پوچھنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ اگر عدالت، آئین کے تحت دی گئی تعبیروتشریح کی ’’اتھارٹی‘‘ سے بہت آگے نکل کر، خود اپنی مرضی کا آئین تحریر کرنے لگے یا آئین کی واضح اور غیرمبہم شقوں سے انحراف کرتے ہوئے اپنی رائے کو اُن سے زیادہ معتبر جانے تو کیا ’’آئینی توازن‘‘ برقرار رہیگا؟ اور اگر نہیں رہے گا تو زخم خوردہ آئین اپنے زخموں کی بخیہ گری کیلئے کس مسیحا کے دروازے پر دستک دے؟ سوال یہ بھی ہے کہ آئین وقانون بنانے اور اس کے تحفظ کی قسم کھانے والی پارلیمنٹ کون سے دربار کی زنجیرِ عدل ہلائے؟ اور اس ’’آئینی عدمِ توازن‘‘ کی زد میں آنے والے پچیس کروڑ عوام کس ماتم کدے کا رُخ کریں؟

عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ جج صاحب نے سو فی صد درست فرمایا کہ ’’فیصلوں پر عمل درآمد لازمی تقاضا ہے اور انتظامیہ کے پاس اس کے سوا کوئی چوائس نہیں‘‘ لیکن ایک ’لازمی تقاضا‘ فیصلہ کرنے سے پہلے یا فیصلہ کرتے ہوئے بھی ہے کہ وہ ملکی آئین وقانون سے مطابقت رکھتا ہواور مُنصف کی ذاتی پسند ناپسند کی آلائش سے پاک ہو۔ عدلیہ کے پاس بھی اس لازمی تقاضے کی پاسداری کے سوا کوئی ’چوائس‘ نہیں۔ عدلیہ کو تشریح وتعبیر کی اتھارٹی دینے والا آئین، عدلیہ کو اِس لازمی تقاضے کا پابند ٹھہراتا ہے۔ کسی اور ادارے کو ’’لازمی تقاضے‘‘ کی یاددہانی کرانے والے ادارے کو اپنے ’’لازمی تقاضے‘‘ کی پاس داری کے بعد ہی ایسا کرنا چاہئے۔ عرفان صدیقی بتاتے ہیں کہ پاکستان میں سپریم کورٹ مرضی کے کیسز اٹھا کر اپنی مرضی کے سیاسی فیصلے دیتی ہے جب کہ 9 مئی کے حملوں اور بلووں جیسے اہم ترین اہمیت کے کیسز التوا کا شکار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سانحہ 9 مئی کو 15 ماہ بیت گئے لیکن شاید ہی کسی بلوائی کو سزا ہوئی ہو۔ ’’آئینی تقاضوں‘‘ کی پرچم بردار عدالتیں، بلوائیوں کی ڈھال بنی ہوئی ہیں۔ ایک حکم اکتوبر 2023 میں جاری ہوا کہ خبردار جو 9 مئی میں ملوث 103 افراد کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کوئی مقدمہ چلایا۔ دسمبر میں اتنی رعایت دے دی گئی کہ چلو مقدمے چلا لو لیکن ہمارے حکم کے بغیر نہ کسی کو سزا دینی ہے نہ بری کرنا ہے۔ اِس بات کو بھی اب آٹھ ماہ ہوچکے ہیں۔ فوجی عدالتیں پابہ زنجیر ہیں اور سول عدالتیں نہ جانے کوہِ قاف کے کون سے غار میں گہری نیند سو رہی ہیں۔ شاید دستورِ پاکستان کا ’’بنیادی آئینی تقاضا،‘‘ یہی ہے کہ ریاست پر حملہ آور بلوائی دندناتے پھریں اور عدل کے تازیانے صرف انتظامیہ اور پارلیمنٹ کی پُشت پر برستے رہیں۔

عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ موجودہ صورتحال کے پیش نظر وقت آگیا ہے کہ ’’آئینی عدم توازن‘‘ کی ذمہ داری دوسروں کے سر ڈال دینے کے بجائے عدلیہ ، آئین کی سبز کتاب کھول کر بیٹھے اور سنجیدگی سے سوچے کہ کیا اُسے آئین کی زندہ وبیدار شقوں کو زیرِزمین دفن کرکے، ان کی مرقد پر اپنی صوابدید کے لالہ وگل بکھیرنے کی ’’اتھارٹی‘‘ ہے؟

Back to top button