نواب اکبر بگٹی نے اپنی مرضی کی موت کیسے حاصل کی؟

26اگست 2006 کے روز بلوچستان کے دورافتادہ پہاڑی علاقے کی ایک غار میں سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مارے جانے والے بلوچ قوم پرست رہنما نواب اکبر بگٹی اپنی موت کے بعد آج ایک افسانوی کردار کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں جو مر کے نہ صرف امر ہوگیا بلکہ بلوچ کاز کا سب سے بڑا حریت پسند ہونے کا درجہ بھی حاصل کر گیا۔ نواب اکبر بگٹی نے اپنی موت سے وہ کر دکھایا جو ان سے زندگی میں ممکن نہ ہوسکا۔ موت سے پہلے بلوچ قوم پرست انہیں ایک حریت پسند اور باغی کے طور پر نہیں بلکہ ایک ایسے شخص کے طور پر پیش کرتے تھے جس نے 70 کی دہائی میں بلوچ قوم پرستوں کی بغاوت کو دبانے کے لیے حکومت وقت اور اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ دیا تھا۔ تاہم اپنی اس تاریخی غلطی کو درست کرنے کے لئے نواب اکبر بگٹی نے آخری حد تک جانے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے خود اپنی موت کی منصوبہ بندی کی اور پھر بڑی بہادری سے اس پر عملدرآمد کیا۔

اکبر بگٹی اور اسٹیبلشمنٹ مشرف دور میں اس وقت آمنے سامنے آگئے جب کیپٹن حماد نے مبینہ طور پرایک بلوچ لیڈی ڈاکٹر کی عصمت دری کی اور انکوائری رپورٹ آنے سے پہلے ہی تب کے فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف نے کیپٹن کے حق میں بیان دے ڈالا۔ جوابی طور پر بلوچ قوم پرستوں نے گیس کے ذخائر پر حملے کیے اور سیکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپیں شروع ہوگئیں۔ تب جنرل مشرف نے اکبر بگٹی کو میڈیا پر یہ دھمکی دی کہ تمہیں پتہ بھی نہیں چلے گا کہاں سے گولی آئے گی اور اور تمہارا کام کر جائے گی۔ جوابآ غاروں میں مورچہ بند بگٹی نے کہا میں مرنے کے لیے تیار ہوں۔ اور پھر سیکیورٹی فورسز کے گھیرے میں آنے کے بعد انہوں نے خود کو ایک دھماکے سے اڑا دیا جس سےغار زمین بوس ہوگئی اور کئی سینئیر فوجی بھی جان سے گئے۔

سیکیوٹی فورسز کے گھیرے میں آئے ہوئے ایک غار میں مورچہ بند نواب اکبر بگٹی نے اپنے مخالفوں اور ریاست کو ایسا الجھایا کہ جس طرح کی سنہری موت وہ چاہتے تھے وہ ریاست کو انہیں دینا پڑی یوں وہ اکبر بگٹی جو کبھی بلوچ کاز کا غدار سمجھا جاتا تھا اپنی سنہری موت کے بعد سے بلوچ کاز کا سب سے بڑا حریت پسند کہلانے لگا ۔

نواب بگٹی نے ریاست قلات کے زمانے میں اپنے قبیلے کی نمائندگی کرتے ہوئے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا تھا وہ وفاقی وزیر رہے، گورنر بلوچستان رہے اور منتخب وزیر اعلیٰ کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ نواب بگٹی نے مگر ایسا سنہری خواب دیکھا کہ جس سے اپنے امیج کو بدل ڈالا اور یہ خواب تھا سنہری موت کا

نواب بگٹی انا پرست اور خودار تھے انہیں کینسر بھی تھا ریاست چاہتی تو ان سے اغماض برت سکتی تھی ۔ ان کے ماضی کو سامنے رکھ کر ان سے نرمی کا سلوک کر سکتی تھی مگر جنرل مشرف نے انہیں نشانہ بنانے کو ذاتی تسکین کا ذریعہ بنا لیا۔

 

بلوچستان دہشت گردی واقعات : کالعدم بی ایل اے نے حملوں کی ذمہ داری قبول کرلی

یوں بھٹو کی پھانسی کے بعد ریاست سے ایک بہت بڑی غلطی ہو گئی بلوچستان کو نواب بگٹی کی موت کی شکل میں ایک نیا بھٹو مل گیا اور اس وقت سے بغاوت کی جو آگ لگی ہے ابھی تک بھجنے کا دم نہیں لے رہی۔ کئی فوجی جوان شہید، کئی پنجابی ، پشتون اور بلوچ اسی نفرت کا شکار ہوئے بلوچ باغیوں کو جو نقصان ہوئے ان کا تو ابھی کسی کو علم تک نہیں۔ غرضیکہ اکبر بگٹی کا قتل ایک غلط فیصلہ ثابت ہوا ہے۔

نواب اکبر بگٹی ، لڑائی اور انتقام کو بھی محبت ہی کی طرح جذبہ سمجھتے تھے ایک بار جب لڑائی شروع ہو گئی تو وہ اس کا مزہ لیتے تھے انتقام کے جذبے کو وہ رومانس قرار دیتے تھے اور بلوچ لوک کہانی کے ہیرو بالاچ کو اپنا آئیڈیل قرار دیتے تھے نواب اکبر بگٹی ایک بہت ایماندار اور اچھے ایڈمسٹریٹر تھے، بطور وزیر اعلیٰ ان کی انتظامیہ پر سخت گرفت تھی۔

وہ انتظام، گورنس پر گہری دسترس رکھتے تھے۔ ان کو گئے کئی برس ہو گئے مگر اب بھی بلوچستان میں ان کی یادیں زندہ ہیں ان کی موت سے جو گہرا گھاؤ لگا ہے اتنے سال گزرنے کے باوجود ابھی تک بھرا نہیں

Back to top button