’میری تصویر اس طرح نہیں لینا جس سے دشمن یہ سمجھے کہ بگٹی کمزور ہو گیا‘

تحریر : محمد کاظم ۔ ۔ ۔۔ بشکریہ : بی بی سی اردو

نواب محمد اکبر خان بگٹی نے جب پہاڑ کی چوٹی پر دو افراد کے کندھوں کا سہارا لے کر چلنا شروع کیا تو وہ لمحہ فوٹو گرافر بنارس خان کے لیے تصویر بنانے کا بہترین موقع تھا۔

بیماری، ایک پیر کے مکمل ناکارہ ہونے اور پیرانہ سالی کے باعث نواب بگٹی کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ لوہے کی چھڑی اور دو افراد کے سہارے کے بغیر زیادہ دیر تک چل پھر سکتے۔ تین سہاروں کے ساتھ اگر ان کی تصویر میڈیا میں شائع ہوتی تو شاید یہ ان کی صحت کی کمزوری کی عکاسی کرتی، اس لیے انھوں نے فوٹو گرافر کو تصویر لینے سے پہلے اپنے پاس بلا کر ایک خاص بات کہی۔

اس موقع پر میں بھی وہاں موجود تھا اور میں نے وہ الفاظ سُنے جو انھوں نے فوٹو گرافر کو کہے ’او پشتون، میری تصویر اس طرح نہیں لینا جس سے دشمن یہ سمجھے کہ بگٹی کمزور ہو گیا ہے۔‘

آج سے ٹھیک 15 برس قبل ایک فوجی آپریشن میں مارے جانے سے بہت پہلے ڈیرہ بگٹی میں صحافیوں سے بات چیت اور انٹرویوز کے دوران اکبر بگٹی اس بات کا برملا اظہار کرتے رہے کہ انھیں اور نواب خیر بخش مری کے صاحبزادے نوابزادہ بالاچ مری کو مارنے کا فیصلہ ہو گیا ہے۔

وہ یہ کہتے رہے کہ ’اگر انھوں نے مجھے مارنے کا فیصلہ کیا ہے تو یہ اُن کا فیصلہ ہے، لیکن میں کس طرح مارا جاﺅں گا یہ فیصلہ اُن کا نہیں ہو سکتا بلکہ اس کا انتخاب میں نے کرنا ہے کہ مجھے کس طرح مرنا ہے۔‘

زندگی کے آخری حصے میں بڑھاپے اور بیماری کی وجہ سے نواب بگٹی کے لیے اپنے گھر میں بھی بہت زیادہ چلنا ممکن نہیں تھا لیکن اس کے باوجود انھوں نے سنہ 2005 کے اواخر میں اپنا گھر چھوڑا اور پہاڑوں کا رُخ کیا، اُس وقت ان کی عمر لگ بھگ 78 برس تھی۔

جس پہاڑی علاقے میں وہ پہلے منتقل ہوئے وہ سبی کی تحصیل لہڑی کے علاقے گھوڑیکے کے قریب ڈیرہ بگٹی کا پہاڑی علاقہ تھا۔

چونکہ یہ علاقہ بہت زیادہ محفوظ نہیں تھا اس لیے وہ جگہ تبدیل کرتے رہے اور کچھ عرصے بعد وہ ڈیرہ بگٹی اور کوہلو کے ایک دشوار گزار علاقے تراتانی منتقل ہو گئے جہاں وہ 26 اگست 2006 کو آپریشن کے دوران اپنے متعدد ساتھیوں سمیت مارے گئے۔

اگرچہ نواب بگٹی کے مارے جانے سے پہلے سنہ 2000 میں ہی بلوچستان کے حالات خراب ہونے شروع ہو گئے تھے لیکن نواب بگٹی کے مارے جانے کے بعد نہ صرف کشیدگی میں اضافہ ہوا بلکہ شورش کا دائرہ بلوچستان کے متعدد علاقوں تک پھیل گیا۔

اس فوجی آپریشن میں اُن کی موت نے بلوچستان میں صورتحال کو کس طرح تبدیل کیا اور بلوچستان کے طول و عرض میں سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کے بعد اب کیا صورتحال ہے اس پر تجزیہ کاروں اور مبصرین کی رائے جاننے سے پہلے نواب بگٹی کی پہاڑوں میں منتقلی کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے ان کی پہلی ملاقات اور اس کے بعد ڈیرہ بگٹی ٹاﺅن تک اس خوفناک سفر کا ذکر جس کے بارے میں ’گیٹی‘ کے امریکی نژاد فوٹو گرافر کو یہ کہنا پڑا تھا کہ ’جس قدر میں ڈیرہ بگٹی میں خوفزدہ ہوا، اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔‘

جب یہ معلوم ہوا کہ نواب بگٹی لہڑی کے قریب پہاڑی علاقوں میں ہیں، تو میڈیا کے دو بین الاقوامی اداروں ’اے ایف پی‘ سے شہزادہ ذوالفقار اور بنارس خان جبکہ ’گیٹی‘ کے فوٹو گرافر جان مور نے اُن سے اس علاقے میں انٹرویو کا پروگرام بنایا۔

میں اس وقت روزنامہ جنگ سے منسلک تھا۔ شہزادہ ذوالفقار نے مجھے بھی جانے کے لیے کہا تو میں نے حامی بھری اور ادارے کے لوگوں نے بھی اس کی اجازت دی کیونکہ بلوچستان میں میڈیا پر جو قدغنیں آج ہیں وہ اس وقت نہیں تھیں۔ کاوش ٹی وی کے رپورٹر ذوالفقار گورمانی اور فوٹو گرافر بھی ہمارے ہمراہ تھے۔

اس طرح ہم چھ لوگ اس سفر کے لیے دو گاڑیوں میں کوئٹہ سے شام کو نکلے۔ چونکہ شورش کے باعث رات کے اوقات میں زیادہ سفر ہم نے مناسب نہیں سمجھا اس لیے رات کو ہم نے سبی میں قیام کیا۔

رات کو جب سب نے ایک ہی کمرے میں سونے کی کوشش کی تو ایک شریکِ سفر کے خراٹے اتنے زور دار تھے کہ دوسروں کے لیے سونا محال ہو گیا۔

اگلے روز ہم ڈیرہ بگٹی کے لیے نکلے۔ ہم اسی روز ہی ڈیرہ بگٹی پہنچ سکتے تھے لیکن لہڑی سے گھوڑی کے راستے میں سکیورٹی فورسز کی بڑے پیمانے پر موجودگی کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں تھا۔ ہمیں خدشہ تھا کہ مرکزی راستے سے شاید ہمیں ڈیرہ بگٹی نہیں جانے دیا جائے گا اس لیے ہم نے رات جنگل میں گزاری۔

چونکہ ہمارے ساتھ بگٹی قبیلے سے تعلق رکھنے والا ایک شخص تھا جس کو لہڑی اور ڈیرہ بگٹی کے درمیان محفوظ مگر غیر روایتی راستے معلوم تھے اس لیے وہ ہمیں ایک برساتی راستے سے لے گیا جس میں جھاڑیاں اور درخت زیادہ تھے۔

لہڑی ٹاﺅن سے دس بارہ کلومیٹر دور ایک علاقے میں رات گزارنے کے بعد ہم علی الصبح وہاں سے نکل پڑے۔ اس علاقے سے وہ جگہ جہاں نواب بگٹی تھے زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ سے دو گھنٹے کے فاصلے پر تھی لیکن ہمیں وہاں پہنچنے میں سات آٹھ گھنٹے لگے، جس کی وجہ دو گاڑیوں میں سے ایک گاڑی کا خراب ہونا تھی۔

وہ گاڑی اگر دس منٹ چلتی تھی تو پھر ریت میں پھنسنے کے باعث دس منٹ اس کو نکالنے میں لگ جاتے تھے۔

اس طرح مشقت سے بھرپور اس سفر کے دوران جب ہم لہڑی کی حدود سے نکل کر ڈیرہ بگٹی کی حدود میں داخل ہوئے تو وہاں بگٹی قبیلے سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں کا ایک کیمپ تھا۔

چونکہ ہمارے پاس موجود کرائے کی گاڑیوں میں سے ایک کا انجن کمزور تھا، اس لیے بگٹی قبیلے کے جنگجوﺅں نے مشورہ دیا کہ اس گاڑی کو راستے میں پہاڑی علاقے میں چھوڑ دیا جائے لیکن ڈرائیور اس کی چوری ہونے کے خدشے کی وجہ سے ایسا نہیں کرنا چاہتے تھے۔

اس پر ایک مسلح شخص نے ان کو کہا کہ جب سارے بگٹی مر گئے تو پھر آپ کی گاڑی کو یہاں سے کون لے جا سکے گا؟

گاڑی کو راستے میں چھوڑنے کے بعد ہم پہلے کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے اس علاقے میں پہنچ گئے جہاں نواب بگٹی موجود تھے۔

بلوچ معاشرے میں لوگ بھیڑ اور بکری کے شانے کی ہڈی کو عمومی طور پر دیکھتے ہیں اور اس سے اندازہ لگاتے ہیں کہ آئندہ برس بارشیں ہوں گی یا نہیں۔ آنے والے حالات کے بارے میں بھی اس کو دیکھ کر پیش گوئیاں کی جاتی ہیں۔

اسی طرح نواب بگٹی کو بھی بھیڑ بکریوں کے شانے کی ہڈیوں میں دلچسپی تھی۔ وہ نہ صرف خود ان کو دیکھتے تھے بلکہ ان کے قبیلے میں جو ماہر لوگ تھے ان سے بھی پوچھتے تھے کہ ان میں کیا نظر آ رہا ہے۔

ان کے پاس ایک بڑے پتھر پر یہ ہڈیاں رکھی ہوئی تھیں۔

انھوں نے نہ صرف اس نشست بلکہ اس سے قبل ہونے والی گفتگو کے دوران بتایا کہ جب انھوں نے اپنے قبیلے کے ایک ماہر کو شانے کی ہڈی دیکھنے اور حال بتانے کا کہا تو اس ماہر نے بتایا کہ اس میں تو خون کا دریا نظر آ رہا ہے۔ ’یہ اس زمانے کی بات تھی جب سابقہ مشرقی پاکستان، جو بنگلہ دیش بن گیا تھا، کے حالات خراب تھے اور وہاں فوجی آپریشن جاری ت

جب ہم لہڑی کے علاقے سے ڈیرہ بگٹی کے لیے روانہ ہوئے تو ’گیٹی امیجز‘ کے فوٹو گرافر جان مور نے اپنی بلٹ پروف جیکٹ اور ہیلمٹ پہن لیا جبکہ گاڑیوں کے دو ڈرائیوروں سمیت باقی پانچ افراد کے پاس تحفظ کے لیے کوئی ایسی چیز نہیں تھی۔

ہیلمٹ پہننے کے بعد وہ ہم سے مختلف نظر آنے لگے جس پر ڈرائیور ان کی بلٹ پروف جیکٹ اور ہیلمٹ کے حوالے سے ان سے مذاق کرنے لگے۔

اشاروں کنایوں سے وہ ان سے پوچھتے رہے کہ سینے اور سر کو آپ نے بلٹ پروف وغیرہ تو محفوظ کر لیا لیکن پیشانی، گردن اور ٹانگوں کو گولیوں سے کیسے بچاﺅ گے۔

نواب بگٹی کا شمار بلوچستان کے ان قبائلی رہنماﺅں اور سیاسی رہنماﺅں میں ہوتا تھا جو مہمان نوازی کے لیے بہت زیادہ مشہور تھے بلکہ بگٹی قبیلے کی سربراہی کے لیے ایک شرط بھی یہی ہے کہ وہ قبیلے کے مہمان خانے کو چلائے گا۔

مختلف اقسام کے کھانوں کے علاوہ ہمارے لیے سجی کا بھی انتظام کیا گیا تھا۔ اسی طرح رات کو بھی ہماری خوب خاطر مدارت کی گئی۔

پہاڑ کے اوپر دو بڑے بڑے پتھروں کے ساتھ نواب بگٹی کے لیے ایک چھوٹا سا خیمہ لگایا گیا تھا جس میں ایک فولڈنگ چارپائی تھی اور اس کے سرہانے کے ساتھ ان کی کلاشنکوف پڑی تھی۔

چونکہ پیروں کی تکلیف کی وجہ سے ان کے لیے زمین پر بہت زیادہ بیٹھنا مشکل تھا اس لیے ان کے بیٹھنے کے لیے وہاں ایک صوفہ موجود تھا۔

چونکہ وہ سردی کے دن تھے اس لیے رات کو خنکی میں اضافے کے بعد وہاں لکڑیاں جلائی گئیں اور رات گئے تک نواب بگٹی سے مختلف موضوعات پر بات ہوتی رہی۔

اگلے روز چونکہ گیٹی کے فوٹو گرافر جان مور کو ڈیرہ بگٹی اور وہاں سے کوہلو جانا تھا اس لیے انھوں نے اس کی خواہش ظاہر کی جس پر نواب بگٹی نے اُن کا انتظام کیا۔

چونکہ نواب بگٹی کے پہاڑوں کا رخ کرنے کے بعد ڈیرہ بگٹی ٹاﺅن ویران پڑا تھا اس لیے باقی لوگوں نے بھی اس خواہش کا اظہار کیا تو اس پر نواب بگٹی نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ ’چھ کے چھ کو مرنا ہے۔‘

اگرچہ ہم نے نواب بگٹی کی اس بات کو مذاق کے طور پر لیا لیکن آگے چل کر ہمیں معلوم ہوا کہ ماحول کتنا خوفناک اور وحشت ناک تھا۔

رات کی تاریکی میں بغیر لائٹ کے گاڑیوں میں سفر

نواب بگٹی کے ساتھ ہی ڈیرہ بگٹی سے لوگوں کی بہت بڑی تعداد نکل گئی تھی تاہم جن دنوں میں ہم ڈیرہ بگٹی گئے تو اس وقت تک نواب بگٹی کے قلعہ پر عسکریت پسند موجود تھے۔

چونکہ مسلح افراد کے بغیر ہم ڈیرہ بگٹی ٹاﺅن تک اپنے طور پر نہیں جا سکتے تھے، اس لیے ان کے ساتھ ہوتے ہوئے ڈیرہ بگٹی کے گردونواح میں سکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹوں کی وجہ سے دن کی روشنی میں ٹاﺅن تک پہنچنا ممکن نہیں تھا اس لیے ہم سنگسیلہ سے سہہ پہر کو نکلے تاکہ رات کی تاریکی میں وہاں پہنچ سکیں۔

ہم وہاں سے تین گاڑیوں میں نکلے اور اندازاً ایک ڈیڑھ گھنٹے کے سفر کے بعد مغرب کا وقت ہو گیا۔

چونکہ یہ بتایا گیا کہ گاڑیوں کی ہیڈ لائٹس کی صورت میں حملے کا خدشہ ہے اس لیے جب تک مکمل اندھیرا نہیں ہوا اس وقت تک ہم بغیر لائٹ کے سفر کرتے رہے۔

مکمل اندھیرا چھا جانے کے بعد سفر کا انحصار صرف گاڑیوں کی پارکنگ لائٹس پر رہ گیا تھا۔ چونکہ وہ پہاڑی علاقہ تھا اور لائٹس کے بغیر گاڑیوں کی رفتار انتہائی کم کرنا پڑتی تھی اس لیے ڈرائیوروں کے لیے پارکنگ لائٹ ایک غنیمت سے کم نہ تھی لیکن ڈیڑھ گھنٹے کے بعد نہ صرف پارکنگ لائٹس کو بند کیا گیا بلکہ بریک کی لائٹس کو بھی کھول کر ان سے بلب نکال دیے گئے۔

ایک طرف ہم ایک ایسے علاقے میں تھے جہاں جنگ جیسی صورتحال کی وجہ سے کسی وقت کچھ بھی ہونے کا خوف تھا جبکہ دوسری جانب پہاڑی علاقے میں گھپ اندھیرے میں گاڑیوں کے کھائیوں میں گرنے کا خوف اس کے علاوہ تھا۔

اس ماحول میں پارکنگ لائٹس پر سفر جاری تھا لیکن اچانک ہم سے آگے والی گاڑی جس میں مسلح افراد بیٹھے تھے اچانک رک گئی۔ ان کے پاس وائر لیس کے سیٹس بھی تھے۔

جب ہم ان کے قریب پہنچے اور ان سے رکنے کی وجہ پوچھی تو ان کا کہنا تھا کہ ان گاڑیوں کی نقل و حرکت کا سکیورٹی فورسز کو پتہ چل گیا ہے اس لیے گاڑیوں پر حملہ ہو سکتا ہے۔ گاڑیوں کو روکنے کے بعد انھوں نے نہ صرف پارکنگ لائٹس کو بند کیا بلکہ بریک کی لائٹس کے بلب نکال دیے تاکہ بریک لگانے کی صورت میں ان سے روشنی پیدا نہ ہو۔

جب روشنی کا کوئی انتظام نہیں رہ گیا تو گاڑیوں کی رفتار بالکل نہ ہونے کے برابر رہ گئی اور ڈرائیور کے ساتھ اندر بیٹھے لوگ مستقل کھڑکیوں سے سر نکال کر ان کو کبھی یہ بتاتے رہے کہ دائیں جانب زیادہ مت بڑھو اور کبھی یہ بتاتے رہے کہ بائیں جانب خطرہ ہے۔

ڈیرہ بگٹی ٹاﺅن سے پہلے پہاڑوں پر سیکورٹی فورسز کی پوسٹیں تھیں اس لیے ان سے بہت پہلے گاڑیوں کے اندر گھڑیوں اور میٹروں کی روشنی کو چھپانے کے لیے بھی ان پر چادر ڈال دی گئی۔

چونکہ ڈیرہ بگٹی ٹاﺅن میں نواب کے قلعے کے قریب گاڑیوں کی آواز سے مسئلہ پیدا ہو سکتا تھا اس لیے گاڑیاں اس چیک پوسٹ سے پہلے درختوں کے نیچھے کھڑی کر دی گئیں جہاں سے نواب بگٹی کے قلعے تک اندازاً آدھے گھنٹے تک پیدل جانا پڑا۔

غیر ملکی فوٹوگرافر کو ڈیرہ بگٹی کا عراق اور افغانستان سے موازنہ کیوں کرنا پڑا؟ یہ ایک دلچسپ سوال ہے۔

نواب بگٹی جس مقام پر تھے وہاں سے ڈیرہ بگٹی ٹاﺅن تک کا سفر ڈیڑھ سے دو گھنٹے تک کا تھا لیکن ایک دشوار گزار علاقے سے رات کو بغیر روشنی کے سفر کے باعث ہمیں نو گھنٹے سے زیادہ لگے۔

بگٹی عسکریت پسندوں کے سوا ہم سب کے لیے یہ ایک خوفناک سفر تھا۔

جب ہم نے ڈیرہ بگٹی میں نواب بگٹی کے نئے زیر تعمیر مہمان خانے میں پہنچنے پر سکھ کا سانس لیا تو جان مور نے کہا کہ خوف کا ایسا ماحول انھوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔

جان مور نے بتایا کہ انھوں نے عراق اور افغانستان میں جنگوں کی کوریج کی لیکن وہ وہاں اتنے خوفزدہ نہیں ہوئے جتنے کہ اس نو گھنٹے کے دوران ڈیرہ بگٹی میں ہوئے۔

صبح اٹھنے کے بعد ہمیں نواب بگٹی کا قلعہ دکھایا گیا۔

یہ پہلا موقع تھا کہ ہم نے نواب بگٹی کے گھر کو اندر سے بھی دیکھا اور بالخصوص ان کے ذاتی استعمال کے کمروں کو بھی باہر سے دیکھا جو گولے لگنے کی وجہ سے متاثر ہوئے تھے۔

نواب بگٹی کا شمار بلوچستان کے زیادہ دولت مند قبائلی عمائدین میں ہوتا تھا لیکن ان کے گھر اندر اور باہر سے ایسے نہیں لگتے تھے کہ یہ کوئی پیسے والے بڑے نواب کے ہیں۔

ان کے قلعے کے باہر مسلح جنگجوﺅں کے سوا کوئی اور نہیں تھا جبکہ ڈیرہ بگٹی بازار بھی مکمل طور پر ویران تھا۔

ہمیں وہاں مسجد بھی دکھائی گئی جو گولہ باری سے متاثر ہوئی تھی، چونکہ وہاں نواب بگٹی کے مخالفین کے علاوہ باقی سب لوگ نکل چکے تھے اس لیے ہماری کسی عام آدمی سے بات چیت نہیں ہو سکی۔

وہاں قلعے میں جو مسلح لوگ تھے انھوں نے ڈیرہ بگٹی کی ویرانی کی تمام تر ذمہ داری حکومت اور ایف سی پر عائد کی۔

سنہ 2006 میں جب ہم ڈیرہ بگٹی گئے تو اس وقت بھی ڈیرہ بگٹی ٹاﺅن میں بدستور ایف سی کے بھمبور رائفل کے کمانڈنٹ ہی تعینات تھے۔

وہاں جانے پر ایف سی کے اہلکاروں نے ایف سی قلعے کا معائنہ کرایا اور قلعے کو پہنچنے والے وہ نقصانات دکھائے جو بگٹی جنگجوﺅں کے راکٹوں سے ہوئے تھے۔

ایف سی کے قلعے کے دوران ہمیں ایف سی کے کمانڈنٹ کی گاڑی میں پڑا وہ قرآن مجید بھی دکھایا گیا جو مبینہ طور پر ایک حملے میں متاثر ہوا تھا جبکہ اس سے قبل، نواب بگٹی کے قلعے کے سامنے ڈیرہ بگٹی کے قدیم جامع مسجد میں بھی ہمیں سب سے پہلے قرآن مجید دکھائے گئے جو لوگوں کے بقول سیکورٹی فورسز کی مبینہ گولہ باری سے متاثر ہوئے تھے۔

اس ملاقات میں ایف سی حکام نے ڈیرہ بگٹی کی صورتحال کا ذمہ دار نواب بگٹی اور ان کے حامیوں کو ٹھرایا اور بتایا کہ ان کی جانب سے ریاست کی رٹ چیلنج کرنے کی وجہ سے موجودہ صورتحال پیدا ہوئی۔

سنہ 2005 میں ڈیرہ بگٹی میں سکیورٹی فورسز اور بگٹی عسکریت پسندوں کے درمیان جو بڑی جھڑپ ہوئی تھی اس کے بعد اور سنہ 2006 میں میڈیا سے بات چیت میں سکیورٹی حکام یہ کہتے رہے کہ قبائلیوں کی جو بغاوت ہے وہ ڈھائی سے تین ماہ کے اندر ختم کر دی جائے گی۔

ایف سی کے کمانڈنٹ سے ملاقات کے بعد ہم نے ڈیرہ بگٹی سے کوئٹہ کے لیے دن کی روشنی میں نکلنے کا فیصلہ کیا۔

اگلے روز گیٹی کے جان مور کو ڈیرہ بگٹی سے متصل شورش سے متاثرہ دوسرے علاقے کوہلو جانا تھا اور ہم نے کوئٹہ۔ اس لیے ہم براہ راست لہڑی کے راستے سے ہی کوئٹہ نکلے لیکن پتہ چلا کہ نواب بگٹی نے ہمیں دوبارہ طلب کیا ہے جس پر ہم متعدد خدشات سے دوچار ہوئے۔

سکیورٹی فورسز اور جنگجوﺅں کے درمیان جھڑپوں کے بعد ڈیرہ بگٹی جس ویرانی کا منظر پیش کر رہا تھا اس کے باعث ہم فوری طور پر وہاں سے نکلنا چاہتے تھے لیکن ہمیں بتایا گیا کہ آپ سیدھا کوئٹہ نہیں جا سکتے کیونکہ نواب بگٹی نے آپ لوگوں کو دوبارہ بلایا ہے۔

نواب بگٹی کو ہم نے بتا دیا تھا کہ ڈیرہ بگٹی ٹاﺅن سے ہم سیدھا کوئٹہ جائیں گے لیکن ان کی طلبی پر ہم میں سے ہر ایک اپنے طور خدشات کا اظہار کرتا رہا۔

باقیوں کے مقابلے مجھے سب سے زیادہ پریشانی لاحق ہوئی۔ میں سوچتا رہا کہ کہیں جنگ کے ڈیسک والوں نے ان کی خبر میں کوئی گڑبڑ نہ کی ہو کیونکہ بلوچستان میں قوم پرست حلقے میڈیا سے زیادہ شاکی رہتے ہیں اور ان کا یہ کہنا ہے کہ اول تو میڈیا ان کے مؤقف کی مناسب کوریج نہیں کرتا اور اگر کرتا ہے تو ایسے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں جن سے ان کا مؤقف ہی تبدیل ہوتا ہے لیکن جب ہم واپس نواب بگٹی کے پاس پہنچے تو وہ بہت خوش تھے۔

ان خدشات کے ساتھ ہم جب واپس نواب بگٹی کے پاس پہنچے تو معاملہ بالکل برعکس تھا اور نواب بگٹی نے دوبارہ کھانے کا انتظام کیا اور وہ کوریج سے بہت زیادہ خوش تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کی تصویریں دنیا بھر میں شائع ہوئی ہیں اور مختلف ممالک سے انھیں لوگوں کا فون آیا اور انھیں ان تصویروں کے بارے میں بتایا جو دوسرے ممالک کے اخبارات میں شائع ہوئی تھیں۔

میرے لیے سب سے حیران کن بات یہ تھی کہ وہ روزنامہ جنگ کی کوریج سے بھی بہت زیادہ خوش تھے اور ان کا یہ کہنا تھا کہ پہلی مرتبہ روزنامہ جنگ نے بھی ان کا بیان من و عن اسی طرح شائع کیا جس طرح انھوں نے کہا تھا۔

پہاڑوں کو مسکن بنانے تک نواب بگٹی پنجاب سے تعلق رکھنے صحافیوں پر مشتمل تحقیقاتی کمیٹی بنانے کے مطالبے پر قائم رہے۔

انگریزوں کے دور میں موجودہ بلوچستان دو حصوں ریاست قلات اور برٹش بلوچستان پر مشتمل تھا۔ برٹش بلوچستان براہ راست انگریزوں کی عملداری میں تھا۔ چونکہ ڈیرہ بگٹی برٹش بلوچستان میں تھا جس کے باعث نواب بگٹی شاہی جرگہ کا ممبر ہونے کے ناطے ان قبائلی عمائدین میں شامل تھے جنھوں نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا۔

وہ گورنر اور وزیر اعلیٰ بلوچستان کے عہدے پر فائز رہنے کے علاوہ مختلف حکومتی عہدوں پر فائز رہے۔

قوم پرست حلقوں کے مطابق قیام پاکستان سے لے کر جنرل مشرف کے اقتدار میں آنے سے قبل تک بلوچستان میں تین فوجی آپریشن ہوئے لیکن ان میں سے ڈیرہ بگٹی میں کوئی نہیں ہوا کیونکہ نواب بگٹی یا ان کے قبیلے کے لوگ ان کاروائیوں کا حصہ نہیں تھے جن کو اس وقت کی حکومتوں کی جانب سے بغاوت قرار دیا جاتا رہا۔

تو پھر وہ کیا وجوہات تھیں کہ مشرف کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ڈیرہ بگٹی میں بھی حالات خراب ہوئے اور وہاں بھی گیس کی تنصیبات کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع ہوا۔

مشرف حکومت کی جانب سے تین قبائلی سرداروں نواب خیر بخش مری، نواب بگٹی اور سردار عطااللہ مینگل کو بدامنی کے حالات کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا گیا کہ حکومت میگا پراجیکٹس شروع کر کے بلوچستان کو ترقی دینا چاہتی ہے جبکہ یہ سردار ترقی کے مخالف ہیں اس لیے وہ بدامنی پھیلا رہے ہیں تاکہ لوگ ترقی نہ کر سکیں اور اس طرح ان کی غلامی سے نہ نکل سکیں۔

سرکاری حکام کی جانب سے نواب بگٹی سمیت تینوں سرداروں پر ملک کے خلاف بغاوت اور اس کو نقصان پہنچانے کے الزامات لگائے جاتے رہے۔

حکومتی الزامات کے برعکس بلوچستان کے قوم پرست حلقے حالات کی خرابی کا ذمہ دار مشرف کی فوجی حکومت اور ان کی پالیسیوں کو ٹھہراتے ہوئے یہ کہتے رہے کہ حکومت بلوچستان کے ساحل اور وسائل پر قبضہ کر کے ان کو یہاں کے عوام کی مرضی کے خلاف استعمال کرنا چاہتی ہے، جس پر لوگ ناراض ہیں۔

نواب خیر بخش مری اور سردار عطااللہ مینگل حکومتی الزامات کا اپنے طور پر جواب دیتے رہے تاہم نواب بگٹی اپنے اوپر لگائے جانے والے الزامات کا جواب دینے کے ساتھ ساتھ پنجاب سے تعلق رکھنے والے تین صحافیوں ایاز امیر، ارشاد احمد حقانی اور سید مشاہد حسین پر مشتمل تحقیقاتی کمیٹی کا مطالبہ کرتے رہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ صحافی ان کے خلاف حکومتی الزامات کی تحقیقات کریں اور اگر یہ الزامات ثابت ہو جائیں تو وہ ہر قسم کی سزا کے لیے تیار ہوں گے۔

بول نیوز کے بیورو چیف اور سینئیر تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار کا کہنا ہے کہ معاملات بات چیت کے ذریعے حل ہو سکتے تھے لیکن بعض قوتیں یہ نہیں چاہتی تھیں جس کی وجہ سے معاملات ’پوائنٹ آف نو ریٹرن‘ تک پہنچ گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ نواب بگٹی مذاکرات کے لیے اسلام آباد جانے کے لیے بھی تیار ہوئے اور اس مقصد کے لیے ایک خصوصی طیارہ اسلام آباد سے ڈیرہ بگٹی بھیجا گیا لیکن جب نواب بگٹی اس میں جانے کے لیے سوئی آئے تو کہا گیا کہ جہاز خراب ہو گیا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ نواب بگٹی نے جہاز کے ٹھیک ہونے کا انتظار کیا لیکن جب انھیں محسوس ہوا کہ جہاز کی خرابی ایک بہانہ ہے تو وہ واپس ڈیرہ بگٹی کے لیے روانہ ہوئے اور ان کی روانگی کے فوراً بعد جہاز سوئی سے پرواز کر کے چلا گیا۔

شہزادہ ذوالفقار کے مطابق بعض لوگ یہ سمجھتے تھے کہ نواب بگٹی کی اہمیت نہیں، وہ ادھر ادھر ہو جائیں گے اور معاملات ٹھیک ہو جائیں گے۔

’جنرل مشرف تو اعلانیہ کہتے تھے کہ بلوچستان کے 72 سردار ان کے ساتھ ہیں جبکہ صرف تین سردار ریاست اور ترقی کے خلاف ہیں۔‘

Back to top button