کیا وفاقی حکومت کے پاس آئینی ترمیم کے لیے اکثریت موجود ہے ؟

صدر آصف زرداری کی جانب سے 28 اگست کو قومی اسمبلی اور سینیٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کے بعد سے اسلام آباد میں افواہیں گرم ہیں کہ حکومت چیف جسٹس فائز عیسی کے عہدے کی معیاد بڑھانے کے لیے آئینی ترمیم لانے والی ہے۔ تاہم قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت ابھی کوئی آئینی ترمیم لانے کی پوزیشن میں اس لیے نہیں کہ اس کے پاس پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت موجود نہیں جس کا اعتراف حال ہی میں وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے بھی کیا ہے۔ تاہم حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کسی ایسی کاروائی کا امکان مسترد نہیں کیا جا سکتا جس کے ذریعے مخصوص نشستوں کے حوالے سے کی جانے والی حکومتی ترمیم پر عمل درامد کو یقینی بنایا جا سکے تاکہ حکومتی اتحاد پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے۔

ذرائع کے مطابق حکومت کے پاس سینیٹ میں دو تہائی اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے ہی صدر آصف علی زرداری نے مولانا فضل الرحمن کے گھر جا کر ان سے ملاقات کی ہے تاکہ 28 اگست کے اجلاس میں ان کی مدد حاصل کی جا سکے۔ یاد ریے کہ کسی بھی آئینی ترمیم کیلئے حکومت کو سینیٹ میں دو تہائی اکثر یت حاصل نہیں اور اس حوالے سے مولانا فضل الرحمن کی جے یو آئی ف کے پاس ترپ کا پتہ ہے۔ اگر صدر آصف علی زرداری کی مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کا کوئی مثبت نتیجہ نکل آتا ہے اور ان کق مفاہمتی کارڈ چل جاتا ہے تو پھر پانسہ پلٹ سکتا ہے۔ اس وقت سینیٹ کے ارکان کی تعداد 96 ہے کیونکہ خیبر پختونخواہ کی گیارہ نشستیں ابھی بھی خالی ہیں۔ اس صورتحال میں آئینی ترمیم کیلئے سینیٹ میں 64 ارکان کی حمایت درکار ہے جن میں سے پی ٹی آئی کے ممبران کی تعداد 17 ہے۔ سینیٹ میں مجلس وحدت مسلمین ‘ سنی اتحاد کونسل‘ بی این پی اور مسلم لیگ قائد اعظم کا ایک ایک ووٹ ہے۔ یہ ممبران ملا جلا کر 20 بنتے ہیں۔ مولانا کی جے یو آئی ف کے ممبران کی تعداد پانچ ہے۔ دوسری جانب تحریک انصاف اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے آپسی تعاون کے اعلان سے سینیٹ میں اپوزیشن کے ممبران کی کل تعداد 26 ہو گئی ہے۔

حکومت کا ججز کی تقرری کا طریقہ بدلنے کے لیے ترمیم کا فیصلہ

اس وقت سینیٹ میں حکمران اتحاد کے نمبرز 59 ہیں۔ پیپلز پارٹی کے ممبران کی تعداد 24 ہے جبکہ مسلم لیگ ن کے ممبران کی تعداد 19 ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے پانچ ممبران ہیں۔ ان میں عوامی نیشنل پارٹی کے تین ممبران ہیں‘ ایم کیو ایم کے بھی تین‘ بی این پی کا ایک ‘ نیشنل پارٹی کا بھی ایک اور آزد ممبران کی توداد چار ہے۔ یہ تمام اراکین ملا کر 59 بنتے ہیں۔

کیا جسٹس منصور شاہ پارلیمنٹ کو سپریم تسلیم کریں گے یا نہیں؟

نمبرز گیم کے مطابق حکومت کو کسی بھی طرح کی آئینی ترمیم کیلئے سینیٹ میں 64 ارکان کی حمایت درکار ہوگی جو کل تعداد کا دو تہائی بنتا ہے۔ مولانا کی جماعت جے یو آئی ف کا کردار چونکہ کلیدی اہمیت اختیار کرگیا ہے اسی لئے پی ٹی آئی کے وفد کی مولانا فضل الر حمن ٰ سے ملاقات کے بعد صدر آصف زرداری ان سے ملنے گئے، تاہم ملاقات کے بعد کوئی اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ یا تو صدر زرداری سے کی دال نہیں گلی اور یا مولانا فضل الرحمن نے حتمی فیصلہ کرنے کے لیے کچھ مطالبات کے ساتھ وقت مانگا ہے۔

ملاقات میں موجود جے یو آئی کے ایک سینیئر لیڈر کا کہنا ہے کہ مولانا اور حکمراں اتحاد کے درمیان فاصلے کم ہو رہے ہیں، آصف زرداری ریاست کے سربراہ کے طور پر ملاقات کیلئے گے اور وزیر داخلہ محسن نقوی کا انکے ہمراہ ملاقات کیلئے آنا اس بات کا ثبوت ہے کہ ریاست جے یو آئی کے تحفظات کو سنجیدہ لے رہی ہے۔ اس سوال پر کہ اب کیا جے یو آئی اپوزیشن کا ساتھ دے گی یا حکمراں اتحاد کا حصہ بنے گی؟ مولانا کے ساتھی کا کہنا تھا کہ جے یو آئی کے پاس دونوں آپشنز موجود ہیں، تاحال ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا، البتہ جے یو آئی ملک میں سیاسی عدم استحام پیدا کرنے کے بجائے تعمیری کردار ادا کرنے کو ترجیح دے گی اور آنے والے دنوں میں اس طرح کی مزید ملاقاتیں ہونگی۔

Back to top button