اکبر بگٹی نے ذلت کی زندگی پر شہادت کو ترجیح کیوں دی؟

اگست 2006 میں مشرف کی فوجی جنتا کے ہاتھوں شہادت کے رتبے پر فائز ہونے والے معروف بلوچ قوم پرست رہنما نواب اکبر خان بگٹی نے اپنی موت سے پہلے یہ اعلان کر دیا تھا کہ ’اگر مشرف نے مجھے مارنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو یہ اُس کا فیصلہ ہے، لیکن میں کس طرح مارا جاؤں گا یہ فیصلہ میں نے کرنا ہے۔‘

بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق زندگی کے آخری حصے میں بڑھاپے اور بیماری کی وجہ سے نواب بگٹی کے لیے اپنے گھر میں بھی بہت زیادہ چلنا ممکن نہیں تھا لیکن اس کے باوجود انھوں نے سنہ 2005 کے آواخر میں اپنا گھر چھوڑا اور پہاڑوں کا رُخ کیا، اُس وقت ان کی عمر لگ بھگ 78 برس تھی۔ جس پہاڑی علاقے میں وہ پہلے منتقل ہوئے وہ سبی کی تحصیل لہڑی کے علاقے گھوڑیکے قریب ڈیرہ بگٹی کا پہاڑی علاقہ تھا۔ چونکہ یہ علاقہ بہت زیادہ محفوظ نہیں تھا اس لیے وہ جگہ تبدیل کرتے رہے اور کچھ عرصے بعد وہ ڈیرہ بگٹی اور کوہلو کے ایک دشوار گزار علاقے تراتانی منتقل ہو گئے جہاں وہ 26 اگست 2006 کو آپریشن کے دوران اپنے متعدد ساتھیوں اور درجن بھی فوجی افسران کے ساتھ تب مارے گئے جب ان کی غار ایک دھماکے سے زمین بوس ہو گئی۔ عموما یہی خیال کیا جاتا ہے کہ یہ دھماکا اکبر بگٹی نے فوجی افسران کے غار میں داخل ہونے کے بعد خود کیا تھا کیونکہ انہیں فوجی جنتا کے ہاتھوں گرفتار ہونا قبول نہیں تھا۔

’میری تصویر اس طرح نہیں لینا جس سے دشمن یہ سمجھے کہ بگٹی کمزور ہو گیا‘

اگرچہ نواب بگٹی کے مارے جانے سے پہلے سنہ 2000 میں ہی میں بلوچستان کے حالات خراب ہونے شروع ہو گئے تھے لیکن نواب بگٹی کی شہادت کے بعد نہ صرف کشیدگی میں اضافہ ہوا بلکہ شورش کا دائرہ بلوچستان کے متعدد علاقوں تک پھیل گیا۔

بی بی سی کے نمائندے مھمد کاظم کی رپورٹ کے مطابق نواب بگٹی کی پہاڑوں میں منتقلی کے بعد بگٹی لہڑی کے قریب پہاڑی علاقوں میں میڈیا کے دو بین الاقوامی اداروں ’اے ایف پی‘ سے شہزادہ ذوالفقار اور بنارس خان جبکہ ’گیٹی‘ کے فوٹو گرافر جان مور سمیت 6 صحافیوں نے اُن سے انٹرویو کا پروگرام بنایا۔

نواب اکبر بگٹی نے اپنی مرضی کی موت کیسے حاصل کی؟

بی بی سی کے کاظم کی رپورٹ کے مطابق مشقت سے بھرپور ایک لمبے سفر کے دوران جب ہم لہڑی کے حدود سے نکل کر ڈیرہ بگٹی کے حدود میں داخل ہوئے تو وہاں بگٹی قبیلے سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں کا ایک کیمپ تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ چونکہ ہمارے پاس موجود کرائے کی گاڑیوں میں سے ایک کا انجن کمزور تھا، اس لیے بگٹی قبیلے کے جنگجوﺅں نے مشورہ دیا کہ اس گاڑی کو راستے میں پہاڑی علاقے میں چھوڑ دیا جائے۔ لیکن ڈرائیور اس کی چوری ہونے کے خدشے کی وجہ سے ایسا نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اس پر ایک مسلح شخص نے ان کو کہا کہ جب سارے بگٹی مر گئے تو پھر آپ کی گاڑی کو یہاں سے کون لے جا سکے گا؟

کاظم لکھتے ہیں کہ گاڑی کو راستے میں چھوڑنے کے بعد ہم پہلے کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے اس علاقے میں پہنچ گئے جہاں نواب بگٹی موجود تھے۔ پہاڑ کے اوپر دو بڑے بڑے پتھروں کے ساتھ نواب بگٹی کے لیے ایک چھوٹا سا خیمہ لگایا گیا تھا جس میں ایک فولڈنگ چارپائی تھی اور اس کے سرہانے کے ساتھ ان کی کلاشنکوف پڑی تھی۔ چونکہ پیروں کی تکلیف کی وجہ سے ان کے لیے زمین پر بہت زیادہ بیٹھنا مشکل تھا اس لیے ان کے بیٹھنے کے لیے وہاں ایک صوفہ موجود تھا۔ چونکہ وہ سردی کے دن تھے اس لیے رات کو خنکی میں اضافے کے بعد وہاں لکڑیاں جلائی گئیں اور رات گئے تک نواب بگٹی سے مختلف موضوعات پر بات ہوتی رہی جس پر انہوں نے کہا کہ اگر جنرل مشرف نے مجھے مارنے کا فیصلہ کرلیا ہے تو یہ فیصلہ اب مجھے کرنا ہے میں نے کس طرح موت کو گلے لگانا ہے۔ اور بعد ازاں انہوں نے ایسا ہی کیا۔

کاظم کے مطابق اگلے روز چونکہ گیٹی کے فوٹو گرافر جان مور کو ڈیرہ بگٹی اور وہاں سے کوہلو جانا تھا اس لیے انھوں نے اس کی خواہش ظاہر کی جس پر نواب بگٹی نے اُن کا انتظام کیا۔ چونکہ نواب بگٹی کے پہاڑوں کا رخ کرنے کے بعد ڈیرہ بگٹی ٹاﺅن ویران پڑا تھا اس لیے باقی لوگوں نے بھی اس خواہش کا اظہار کیا تو اس پر نواب بگٹی نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ ’چھ کے چھ کو مرنا ہے۔‘ اگرچہ ہم نے نواب بگٹی کی اس بات کو مذاق کے طور پر لیا لیکن آگے چل کر ہمیں معلوم ہوا کہ ماحول کتنا خوفناک اور وحشت ناک تھا۔ نواب بگٹی کے ساتھ ہی ڈیرہ بگٹی سے لوگوں کی بہت بڑی تعداد نکل گئی تھی تاہم جن دنوں میں ہم ڈیرہ بگٹی گئے تو اس وقت تک نواب بگٹی کے قلعہ پر عسکریت پسند موجود تھے۔ چونکہ مسلح افراد کے بغیر ہم ڈیرہ بگٹی ٹاﺅن تک اپنے طور پر نہیں جا سکتے تھے، اس لیے ان کے ساتھ ہوتے ہوئے ڈیرہ بگٹی کے گرد و نواح میں سکیورٹی فورسز کے چیک پوسٹوں کی وجہ سے دن کی روشنی میں ٹاﺅن تک پہنچنا ممکن نہیں تھا اس لیے ہم سنگسیلہ سے سہہ پہر کو نکلے تاکہ رات کی تاریکی میں وہاں پہنچ سکیں۔ ہم وہاں سے تین گاڑیوں میں نکلے اور اندازاً ایک ڈیڑھ گھنٹے کے سفر کے بعد مغرب کا وقت ہو گیا۔

کاظم کہتے ہیں کہ چونکہ یہ بتایا گیا کہ گاڑیوں کی ہیڈ لائٹس کی صورت میں حملے کا خدشہ ہے اس لیے جب تک مکمل اندھیرا نہیں ہوا اس وقت تک ہم بغیر لائٹ کے سفر کرتے رہے۔ مکمل اندھیرا چھا جانے کے بعد سفر کا انحصار صرف گاڑیوں کی پارکنگ لائٹس پر رہ گیا تھا۔ چونکہ وہ پہاڑی علاقہ تھا اور لائٹس کے بغیر گاڑیوں کی رفتار انتہائی کم کرنا پڑتی تھی اس لیے ڈرائیوروں کے لیے پارکنگ لائٹ ایک غنیمت سے کم نہ تھی۔ لیکن ڈیڑھ گھنٹہ کے بعد نہ صرف پارکنگ لائٹس کو بند کیا گیا بلکہ بریک کی لائٹس کو بھی کھول کر ان سے بلب نکال دیے گئے۔ ایک طرف ہم ایک ایسے علاقے میں تھے جہاں جنگ جیسی صورتحال کی وجہ سے کسی وقت کچھ بھی ہونے کا خوف تھا جبکہ دوسری جانب پہاڑی علاقے میں گھپ اندھیرے میں گاڑیوں کے کھائیوں میں گرنے کا خوف اس کے علاوہ تھا۔

اس ماحول میں پارکنگ لائٹس پر سفر جاری تھا لیکن اچانک ہم سے آگے والی گاڑی جس میں مسلح افراد بیٹھے تھے اچانک رک گئی۔ ان کے پاس وائر لیس کے سیٹس بھی تھے۔ جب ہم ان کے قریب پہنچے اور ان سے رکنے کی وجہ پوچھی تو ان کا کہنا تھا کہ ان گاڑیوں کی نقل و حمل کا سکیورٹی فورسز کو پتہ چل گیا ہے اس لیے گاڑیوں پر حملہ ہو سکتا ہے۔ گاڑیوں کو روکنے کے بعد انھوں نے نہ صرف پارکنگ لائٹس کو بند کیا بلکہ بریک کی لائٹس کے بلب نکال دیے تاکہ بریک لگانے کی صورت میں ان سے روشنی پیدا نہ ہو۔

کاظم کے مطابق جب روشنی کا کوئی انتظام نہیں رہ گیا تو گاڑیوں کی رفتار بالکل نہ ہونے کے برابر رہ گئی اور ڈرائیور کے ساتھ اندر بیٹھے لوگ مستقل کھڑکیوں سے سر نکال کر ان کو کبھی یہ بتاتے رہے کہ دائیں جانب زیادہ مت بڑھو اور کبھی یہ بتاتے رہے بائیں جانب خطرہ ہے۔

ڈیرہ بگٹی ٹاﺅن سے پہلے پہاڑوں پر سیکورٹی فورسز کی پوسٹیں تھیں اس لیے ان سے بہت پہلے گاڑیوں کے اندر گھڑیوں اور میٹروں کی روشنی کو چھپانے کے لیے بھی ان پر چادر ڈال دی گئی۔

چونکہ ڈیرہ بگٹی ٹاﺅن میں نواب کے قلعے کے قریب گاڑیوں کی آواز سے مسئلہ پیدا ہو سکتا تھا اس لیے گاڑیاں اس چیک پوسٹ سے پہلے درختوں کے نیچھے کھڑی کر دی گئیں جہاں سے نواب بگٹی کے قلعے تک اندازاً آدھے گھنٹے تک پیدل جانا پڑا۔ نواب بگٹی جس مقام پر تھے وہاں سے ڈیرہ بگٹی ٹاﺅن تک کا سفر ڈیڑھ سے دو گھنٹے تک کا تھا لیکن ایک دشوار گزار علاقے سے رات کو بغیر روشنی کے سفر کے باعث ہمیں نو گھنٹے سے زیادہ لگے۔بگٹی عسکریت پسندوں کے سوا ہم سب کے لیے یہ ایک خوفناک کا سفر تھا۔

جب ہم ڈیرہ بگٹی میں نواب بگٹی کے نئے زیر تعمیر مہمان خانے میں پہنچنے پر سکھ کا سانس لیا تو جان مور نے کہا کہ خوف کا ایسا ماحول انھوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ جان مور نے بتایا کہ انھوں نے عراق اور افغانستان میں جنگوں کی کوریج کی لیکن وہ وہاں اتنے خوفزدہ نہیں ہوئے جتنے کہ اس نو گھنٹے کے دوران ڈیرہ بگٹی میں ہوئے۔ صبح اٹھنے کے بعد ہمیں نواب بگٹی کا قلعہ دکھایا گیا۔یہ پہلا موقع تھا کہ ہم نے نواب بگٹی کے گھر کو اندر سے بھی دیکھا اور بالخصوص ان کے ذاتی استعمال کے کمروں کو بھی باہر سے دیکھا جو کہ گولے لگنے کی وجہ سے متاثر ہوئے تھے۔ ہمیں وہاں مسجد بھی دکھائی گئی جو کہ گولہ باری سے متاثر ہوئی تھی، چونکہ وہاں نواب بگٹی کے مخالفین کے علاوہ باقی سب لوگ نکل چکے تھے اس لیے ہماری کسی عام آدمی سے بات چیت نہیں ہو سکی۔ وہاں قلعے میں جو مسلح لوگ تھے انھوں نے ڈیرہ بگٹی کی ویرانی کی تمام تر ذمہ داری حکومت اور ایف سی پر عائد کی۔

سنہ 2006 میں جب ہم ڈیرہ بگٹی گئے تو اس وقت بھی ڈیرہ بگٹی ٹاﺅن میں بدستور ایف سی کے بھمبور رائفل کے کمانڈنٹ ہی تعینات تھے۔

وہاں جانے پر ایف سی کے اہلکاروں نے ایف سی قلعے کا معائنہ کرایا اور قلعے کو پہنچنے والے وہ نقصانات دکھائے جو کہ بگٹی جنگجوﺅں کے راکٹوں سے ہوئے تھے۔ ایف سی کے قلعے کے دوران ہمیں ایف سی کے کمانڈنٹ کی گاڑی میں پڑا وہ قرآن مجید بھی دکھایا گیا جو مبینہ طور پر ایک حملے میں متاثر ہوا تھاجبکہ اس سے قبل نواب بگٹی کے قلعے کے سامنے ڈیرہ بگٹی کے قدیم جامع مسجد میں بھی ہمیں سب سے پہلے قرآن مجید دکھائے گئے جو کہ لوگوں کے بقول سیکورٹی فورسز کی مبینہ گولہ باری سے متاثر ہوئے تھے۔

Back to top button