وعدے کے باوجود مریم حکومت پیپلزپارٹی کے مطالبات ماننے سے انکاری

 پنجاب میں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی میں معاملات طے ہونے کے ایک ہفتے بعد ایک بار پھر دونوں اتحادی جماعتیں ایک بار پھر آمنے سامنے آتی دکھائی دیتی ہیں۔پنجاب میں پاور شئرنگ کے معاملے پر پنجاب حکومت پاکستان پیپلز پارٹی کے مطالبات پر تحفظات کا شکار ہو گئی۔

خیال رہے کہ ماضی قریب میں پیپلز پارٹی رہنمائوں کی جانب سے توپوں کا رخ نون لیگی قیادت کی جانب کرنے کے بعد پی ٹی آئی حلقوں کی جانب سے دعوی کیا جا رہا تھا کہ پنجاب میں سانجھے کی ہنڈیا بیچ چوراہے پھو ٹنے والی ہے۔ تاہم لیگی قیادت ک جانب سے پیپلزپارٹی کے تمام مطالبات مانتے ہوئے عمرانڈوز کی خواہشات پر اس وقت تو پانی پھیر دیا تھا۔ تاہم اب ایک بار پھر پنجاب حکومت نے پیپلزپارٹی کی جانب سے سامنے آنے والے مطالبات بارے تحفظات کا اظہار کر دیا ہے۔

ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی نے ن لیگ کو اپنے مطالبات اور تجاویز سے آگاہ کر کیا تھا، پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے ن لیگ کو لاء افسران کی لسٹ بھی بھیجی گئی تھی، پیپلز پارٹی نے پنجاب میں پولیس افسران سے کام کروانے کے لئے ضلع کی سطح پر کمیٹیاں بنانے کی تجویز دی تھی۔

پیپلز پارٹی کے پنجاب کے اراکین اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز کی فراہمی کا پیکیج بھی طے ہو چکا ہے، پنجاب حکومت کی طرف سے پیپلزپارٹی کے اراکین کو 25 کروڑ روپے کے فنڈ دینے کا وعدہ بھی کیا گیا تھا جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی نے انتخابات میں 20 ہزار سے زائد ووٹ لینے والے ٹکٹ ہولڈرز کو بھی 25 کروڑ روپے کے ترقیاتی فنڈ دینے کی تجویز دی تھی۔

مخصوص نشستوں پر پیپلز پارٹی کی منتخب خواتین اراکین کو 10 کروڑ روپے کا ترقیاتی فنڈ دینے کی تجویز دی گئی تھی جبکہ ہر ضلع میں پیپلز پارٹی نے دو لاء افسران کی تعیناتی کا بھی ن لیگ سے مطالبہ کیا تھا،پیپلز پارٹی نے ہر ضلع کی مارکیٹ کمیٹیوں، بیت المال اور زکوٰۃ کمیٹیوں میں بھی اپنے نمائندے تعینات کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ لاہور میں ہونے والے اجلاس میں مطالبات ماننے کے بعد اب پنجاب حکومت نے ایک بار پھر اس حوالے سے تحفظات کا اظہار کر دیا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے مطالبات مانے جاتے ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس میں ہوگا۔ذرائع کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی اور ن لیگ کا پاور شیئرنگ سے متعلق اگلا اجلاس وزیراعظم ہاؤس اسلام آباد میں ہو گا، اجلاس میں ن لیگ کیطرف سے اسحاق ڈار، رانا ثنا اللہ اور مریم اورنگزیب شامل ہوں گی جبکہ ندیم افضل چن اور علی حیدر گیلانی پیپلزپارٹی کی نمائندگی کریں گے۔

دوسری جانب سیاسی مبصرین کے مطابق ہُوبہُو ویسی تو نہیں لیکن پنجاب میں پیپلز پارٹی کی موجودہ صورت حال حالیہ سیاسی تاریخ میں متحدہ قومی موومنٹ یعنی ایم کیو ایم کی حکمتِ عملی سے مِلتی جُلتی ہے۔’موجودہ صورت حال ایم کیو ایم کی حکومتِ وقت سے اپنی باتیں منوانے کے لیے ’منہ بسورنے‘ سے لے کر حمایت ختم کرنے تک کی دھمکیوں جیسی مشابہت ضرور رکھتی ہے، لیکن ’سیانی‘ ن لیگ بات منہ بسورنے سے آگے جانے کا موقع ہی نہیں دیتی۔

اس صورت حال پر بات کرتے ہوئے تجزیہ کار وجاہت مسعود کا کہنا تھا کہ ’مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی جس بندوبست کے ذریعے اکٹھے کام کر رہے ہیں اس میں سے کسی ایک کا نکلنا بھی محال ہے۔‘’اس طرح کے نظام میں ہر سیاسی پارٹی اپنے مفادات کو بھی مقدم رکھتی ہے چاہے وہ ایم کیو ایم ہو یا پھر پیپلز پارٹی یا کوئی اور جماعت۔ یہ ایک سادہ سی جمع تفریق ہے کہ سیاسی مفادات کو حاصل کرنے کے لیے تمام توانائی صرف کی جائے۔‘ان کے مطابق ’پیپلز پارٹی کا مفاد پنجاب میں اپنی جگہ دوبارہ بنانا ہے اور اس کے لیے یقینی طور پر اُن کے نامزد کیے گئے نمائندوں کے ذریعے فنڈز کے استعمال سے انہیں فائدہ ہونے کی توقع ہے۔‘انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’پارلیمنٹ کے اندر کمزور حکومتوں کو بلیک میلنگ کا ہمیشہ سامنا رہتا ہے۔ چاہے کوئی بھی ملک ہو۔ اقتدار کے ساتھ ساتھ ایسی آزمائشیں ہمیشہ کمزور حکومت کے ساتھ رہتی ہیں۔‘

Back to top button