کیا وفاق خیبرپختونخوا میں گورنرراج لگانے کی پوزیشن میں ہے؟

تحریک انصاف کے منہ پھٹ اور بدتمیز وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کی بڑھتی ہوئی سر کشی کے بعد خیبرپختونخوا میں گورنر راجہ لگانے کی افواہیں گرم ہیں تاہم قانونی ماہرین کے مطابق 18ویں ترمیم کے بعد وفاقی حکومت کیلئے ٹھوس وجوہات اور متعلقہ صوبائی اسمبلی یا پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر کسی بھی صوبے میں گورنر راج لگانا  ممکن نہیں اس لئے وفاقی حکومت علی امین گنڈاپور کو لگام ڈالنے کیلئے صوبائی اسمبلی کی بجائے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں قرارداد منظور کر کے صوبے میں گورنر راج نافذ کر سکتی ہے

خیال رہے کہ ملکی سیاسی تاریخ میں ایسے کئی واقعات موجود ہیں جہاں صوبوں اور وفاق کے درمیان امور ناسازگار ہونے کے سبب گورنر راج لگانے کی بازگشت سنائی دی۔ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد آنے کے بعد بھی چند وفاقی وزرا نے گورنر راج لگانے کی تجویز دی تھی تاہم آئینی اعتبار سے کمزور وجوہات کی بناء پر وفاقی حکومت نے گورنر راج کا آپشن اختیار نہیں کیا تھا تاہم اسلام آباد جلسے میں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو نشانے پر رکھنے اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنداپور کے افغانستان سے بات چیت کرنے کے اعلان کے بعد سے ایک بار پھر وفاق کی جانب سے صوبے میں گورنر راج لگانے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ تاہم قانونی ماہرین کے مطابق شہباز شریف حکومت کیلئے خیبرپختونخوا میں گورنر راج لگانا آسان نہیں ہے ۔
تاہم ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ وفاق کی جانب سے صوبے میں گورنر راج لگانے کا طریقہ کار کیا ہے؟ قانونی ماہرین کے مطابقآئین میں وفاق کو صوبے میں ایمرجنسی لگانے کے حوالے سے ایک پورا باب مختص ہے اور اس میں صوبے میں ایمرجنسی لگانے سے متعلق تمام تفصیلات دی گئی ہیں۔آئین کا آرٹیکل 232 صدر مملکت کو یہ اختیار دیتا ہے کہ اگر صدر مملکت یہ سمجھتے ہیں کہ صوبے میں ایسی ایمرجنسی درپیش ہے جس سے پاکستان کی سلامتی کو خطرہ ہو، اندرونی یا بیرونی شورش کا معاملہ ہو جو صوبے کے کنٹرول سے باہر ہے تو ایسی صورت میں صدر مملکت صوبے میں ایمرجنسی لگانے کا اختیار رکھتے ہیں۔ جس کے لیے متعلقہ صوبائی اسمبلی سے قراردار کی منظوری لازمی ہوتی ہے۔

مبصرین کے مطابق  18ویں آئینی ترمیم کے بعد کسی بھی صوبے میں گورنر راج لگانے کا معاملہ اس قدر پیچیدہ بنا دیا گیا ہے کہ کوئی بھی وفاقی حکومت آسانی سے ایسا قدم نہیں اٹھا سکتی۔ اگر کسی جماعت کی صوبے میں اکثریت ہو، ارکان اسمبلی وزیراعلیٰ کے ساتھ ہوں تو پھر صوبائی اسمبلی کی قرارداد کے ذریعے وفاقی حکومت کا گورنر راج لگانا تکنیکی طور پر ازحد مشکل ہوتا ہے۔ تاہم صوبائی اسمبلی کی قرار داد کے بغیر اگر صدر مملکت صوبے میں ایمرجنسی نافذ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو ایسی صورت میں مجلس شوریٰ یعنی قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں ایوانوں سے 10 روز کے اندر قرار داد منظور کروائی جانا لازم ہے۔

کسی بھی صوبے میں گورنر راج کے نفاذ کے بعد صوبے کے انتظامی امور اور قانون سازی کا اختیار وفاق کے پاس چلا جاتا ہے۔ وفاق خود یا اپنے نمائندے گورنر کے ذریعے صوبے کے معاملات کو چلا سکتے ہیں تاہم ایسی ایمرجنسی کی صورت میں صوبے کی عدالتیں متاثر نہیں ہوتیں۔

گورنر راج یا صوبے میں ایمرجنسی کی مدت صرف 2 ماہ ہے اور اس کے لیے بھی مجلس شوریٰ سے منظوری لی جائے گی تاہم پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ایک مدت میں ایک دفعہ 2 ماہ کی توسیع بھی کی جاسکتی ہے۔آئین کے آرٹیکل 232 کے تحت موجودہ صورتحال میں خیبر پختونخوا میں صدر مملک گورنر راج لگا سکتے ہیں کیونکہ وفاقی حکومت کے پاس قومی اسمبلی اور سینیٹ میں عددی اکثریت موجود ہے۔

Back to top button