کوفتوں کی پلیٹ

تحریر:جاوید چودھری۔۔۔۔۔۔بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس
اﷲ تعالیٰ کا سسٹم مجھے آنٹی صغریٰ نے سمجھایا تھا‘ میں لاہور میں پڑھتا تھا‘ ہم چار لڑکوں نے مل کر دو کمروں کا فلیٹ کرائے پر لے رکھا تھا‘ ہماری روزانہ برتن دھونے‘ باتھ روم صاف کرنے اور کھانا پکانے پر لڑائی ہوتی تھی‘ مجھے برتن دھونے سے چڑ تھی اور میرے روم میٹ مجھے ہمیشہ یہ فریضہ سونپ دیتے تھے چنانچہ میں ہر دوسرے دن لڑ جھگڑ کر فلیٹ سے نکل جاتا تھا‘ محلے کا ایک لڑکا میرا دوست بن گیا‘ میں اکثر رات کے وقت اس کے ساتھ واک کیا کرتا تھا‘ ایک شام میرا جھگڑا ہوا اور میں اس کے گھر چلا گیا‘ وہ اس وقت کھانا کھا رہا تھا‘ اس کی والدہ نے مجھے بھی کھانے کی پیش کش کی‘ میں ڈیڑھ دن سے بھوکا تھا‘ میں نے فوراً آفر قبول کرلی۔

آنٹی صغریٰ نے اس دن کوفتے بنا رکھے تھے‘ میں بھوکا تھا اور کوفتے شان دار تھے لہٰذا میں نے جی بھر کر کھانا کھایا اور اس سے زیادہ جذبے اور جوش سے آنٹی کے کوفتوں کی تعریف کی‘ میں نے محسوس کیا میں جتنا آنٹی کے کوفتوں کی تعریف کرتا جا رہا ہوں، آنٹی اتنے ہی کوفتے میری پلیٹ میں ڈال رہی ہیں‘ میں کھا کر تھک گیا مگر آنٹی کا جذبہ خدمت نہیں تھکا‘ وہ مجھے مزید کھلانا چاہ رہی تھیں‘ بہرحال کھانا ختم ہو گیا‘ میں نے اپنے دوست اور آنٹی کا شکریہ ادا کیا اور رخصت چاہی‘ میں جب ان کے گھر کی دہلیز پار کرنے لگا تو آنٹی نے مجھے سالن کی پتیلی پکڑائی اور نہایت پیار سے میرے سر پر ہاتھ پھر کر بولیں‘ بیٹا آپ یہ کوفتے لے جاؤ‘ خود بھی کھانا اور اپنے روم میٹس کو بھی کھلا دینا‘ میں نے سرجھکا کر ان کا شکریہ ادا کیا اور پتیلی لے کر اپنے فلیٹ پہنچ گیا۔

ہم نے اگلے دو دن کھانا نہیں بنایا‘ ہم سب کوفتے کھاتے رہے اور آنٹی کے لیے دعائیں کرتے رہے اور اس کے بعد ہم جب بھی کھانا نہیں بنانا چاہتے تھے تو ہم آنٹی کی بیل بجا دیتے تھے اور وہ بہت محبت سے ہمیں کوفتوں کا ڈونگا پکڑا دیتی تھیں‘ ہماری دلچسپی دیکھ کر آنٹی نے کوفتوں کو اپنے روزانہ کے مینیو کا حصہ بنا لیا‘ وہ روز کوفتے بناتی تھیں اور ہمیں بھجوا دیتی تھیں‘ اس معرکے کے بعد میرے روم میٹ میری بہت عزت کرنے لگے اور انھوں نے میری ڈیوٹی برتن دھونے سے تبدیل کر کے واش روم کی صفائی پر لگا دی‘ میں آج بھی یہ فیصلہ نہیں کر سکا یہ میری پروموشن تھی یا ڈیموشن!۔

میں نے ایک دن آنٹی سے پوچھا ’’آپ ہمارے لیے روزانہ کیوں زحمت کرتی ہیں؟ آپ خود قیمہ لے کر آتی ہیں‘ اس میں مصالحے گوندھتی ہیں‘ پانچ گھنٹے لگا کر کوفتے بناتی اور پھر ہم جیسے لوفروں کو کھلا دیتی ہیں‘ آپ کو اس مشقت کا کیا فائدہ ہوتا ہے؟‘‘ آنٹی نے ہنس کر میرے بازو پر ہلکا سا تھپڑ مارا اور بولیں ’’بیٹا یہ مشقت یا زحمت نہیں ہے‘ میں یہ کام خوشی سے کرتی ہوں‘‘وہ تھوڑاسا رک کربولیں ’’بیٹا مجھے بچپن سے کوفتے بنانے کا شوق تھا‘ میں نے یہ اپنی والدہ اور دادی سے سیکھے تھے‘ میں ہفتے میں دو مرتبہ یہ بناتی تھی مگرکبھی کسی نے ان کی تعریف نہیں کی ‘ تم پہلے شخص تھے جس نے دل سے میرے آرٹ کی تعریف کی تھی‘ مجھے وہ سن کر بے انتہا خوشی ہوئی اور میں اس دن کے صدقے آج تک تمہاری اور تمہارے روم میٹس کی خدمت کر رہی ہوں‘‘ یہ سن کر میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔

میں نے روز اول سے لے کر اس دن تک دل سے آنٹی کے کوفتوں کی تعریف نہیں کی تھی‘ ہمیں بس مفت کھانا مل جاتا تھا چناں چہ ہم آنٹی کو مکھن لگاتے تھے لیکن آنٹی کے دل میں ہمارے ان الفاظ کی کیا ویلیو تھی مجھے اس دن پتا چلا اور میں نے اس کے بعد ہر شخص کی مہربانی‘ دل داری اور نوازش کا دل وجان سے شکریہ ادا کرنا شروع کر دیا‘ آپ یقین کریں ہر شخص نے شکریہ کے بعد اپنی نوازش‘ دل داری اور مہربانی میں اضافہ کر دیا‘ اس کا دل وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیا‘ میری زندگی میں آج تک کوئی ایسا دن نہیں گزرا جب کسی شخص نے مجھ پر مہربانی کی ہو اور میں نے آگے بڑھ کر اس کا شکریہ ادا نہ کیا ہوحتیٰ کہ اگر کوئی شخص زیادتی بھی کر جائے تو میں اس سے رابطہ کر کے اسے بتاتا ہوں میرے دل میں آپ کے خلاف کوئی کدورت‘ کوئی رنجش نہیں‘ یہ آپ کا حق تھا آپ نے یہ استعمال کیا‘ مجھے کوئی اعتراض نہیں بس اگر آپ کے پاس کبھی وقت ہوا تو آپ مجھے چند لمحے عنایت کر دیجیے گا‘ میں آپ کو اپنا موقف بھی دے دوں گا‘ آپ یقین کریں اس کے بعد میرے اس شخص کے ساتھ زیادہ شان دار تعلقات استوار ہوگئے۔

میں نے آگے چل کر اس معمولی سی عادت سے اندازہ لگایا اﷲ تعالیٰ کا سسٹم بھی آنٹی صغریٰ کے کوفتوں جیسا ہے‘ اﷲ اپنے بندوں کو نوازتا ہے‘ اس کی نوازشات کل انسانیت کے لیے ہوتی ہیں لیکن ہم میں سے جو شخص اس کی نوازش پر اس کی حمدوثناء کرتا ہے‘ اس کا شکر ادا کرتا ہے‘ اﷲ تعالیٰ اسے ہجوم سے الگ کر کے اس پر اپنی نوازشات کی بارش کر دیتا ہے‘ وہ اس کی پلیٹ میں کوفتے ڈالتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ انسان تھک جاتا ہے لیکن اﷲ تعالیٰ کی رحمت نہیں تھکتی‘ آپ نے بادشاہوں کے قصے سنے ہوں گے‘ بادشاہ جب کسی شخص کو انعام دیتا تھا اور وہ جھک کر بادشاہ کی دریا دلی‘ نوازش اور مہربانی کا شکریہ ادا کرتا تھا تو بادشاہ اس کے انعام اور مہربانی میں اضافہ کر دیتا تھا‘ اﷲ تعالیٰ بادشاہوں کا بادشاہ ہے‘ یہ بھی شکریہ اور شکر کرنے والوں پر اپنی مہربانی بڑھا دیتا ہے‘ میں نے بچپن میں کتابیں پڑھنا اور علماء کی محفل میں بیٹھنا شروع کر دیا تھا‘ اﷲ نے مہربانی کی‘ میں نے آنٹی صغریٰ کا فارمولا لگایا‘ میں اﷲ کا شکر ادا کرتا چلا گیا اور یہ اپنے علم کی طرف کھلنے والے دروازے مجھ پر کھولتا چلا گیا۔

میں آج بھی علم کی شاہراہ پر پیدل چل رہا ہوں اور اﷲ کی نعمت کا شکر ادا کر رہا ہوں‘ سفر کا شوق ہوا تو اﷲ کی بنائی ہر جگہ پر گیا‘ اس کی بنائی دنیا کی تعریف کی اور اﷲ تعالیٰ نے جواب میں میری پلیٹ میں مزید کوفتے ڈل دیے‘ اس نے سفر کے اور راستے کھول دیے‘ اﷲ تعالیٰ نے معاشی آزادی عنایت کی‘ میں نے اس کا شکر ادا کیا‘ اس کی رحمت اس کی عنایت کی تعریف کی اور اﷲ تعالیٰ نے میری پلیٹ کے کوفتے مزید بڑھا دیے‘ میرا بیٹا ٹورازم کمپنی چلا رہا ہے‘ یہ دو سال قبل پریشان تھا‘ میں اسے گوہر اعجاز صاحب کے پاس لے گیا‘ گوہر اعجاز صاحب پریکٹیکل فلاسفر ہیں‘ انھوں نے زندگی سے جو کچھ سیکھا اسے انھوں نے فلاسفی کی شکل دے دی‘ میں اکثر اپنے بزنس مین دوستوں سے کہتا ہوں آپ نے اگر بزنس سیکھنا ہے تو گوہر اعجاز سے سیکھیں‘ یہ شخص قرض‘ سود اور بینکوں کے بغیر کھربوں روپے کا کاروبار کر رہا ہے۔

آپ کو اس سے سیکھنا چاہیے‘ میں بیٹے کو گوہر اعجاز کے پاس لے گیا‘ گوہر بھائی نے اسے مشورہ دیا تم اگر کاروبار میں مستقل ترقی کرنا چاہتے ہو توبھوکوں کھانا کھلانا شروع کر دو‘ ان کا کہنا تھا میں زندگی میں ایک بار بری طرح پھنس گیاتھا‘ میں پریشانی میں کسی جگہ کھڑا تھا‘ سامنے بورڈ پر قرآن مجید کی آیت تحریر تھی ’’اور وہ کھلاتے ہیں کھانا اس کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو‘‘(الدھر‘ آیت8) میں نے اس آیت میں دیے گئے اللہ کے حکم کے مطابق فوری طور پر لاہور کے ایک اسپتال میں مریضوں کے لیے کھانا شروع کرا دیا‘ اﷲ تعالیٰ نے مجھے ہاتھ سے پکڑ کر مسائل کی دلدل سے باہر نکال دیا بس وہ دن ہے اور آج کا دن ہے میں لوگوں کا کھانا بڑھاتا جا رہا ہوں اور اﷲ تعالیٰ میرے رزق میں اضافہ کرتا جا رہا ہے‘ میرے بیٹے نے یہ نصیحت پلے باندھ لی‘ اس نے اس نیک کام کا آغاز کیا اور میں روزانہ کی بنیاد پر اس کے کاروبار میں اضافہ دیکھ رہا ہوں۔

میرے ایک دوست ہوتے تھے سردار کامران‘ یہ ہمارے ساتھ سفر بھی کیا کرتے تھے‘ بہت پڑھے لکھے اور سمجھ دار شخص تھے‘ پچھلے ماہ ان کا انتقال ہو گیا‘ اﷲ تعالیٰ انھیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے‘ انھوں نے ایک بار دعا کا اصل طریقہ بتایا تھا‘ ان کا کہنا تھا دعا لفظوں کی محتاج نہیں ہونی چاہیے‘ آپ جب کسی شخص کو دیکھتے ہیں اور آپ کے ذہن میں جو خیال یا زبان پر جو الفاظ آتے ہیں وہ اصل دعا ہوتے ہیں مثلاً آپ جب کوئی خوب صورت عمارت‘ شان دار گھر یا باغ دیکھتے ہیں اور آپ کی زبان سے بے اختیار سبحان اﷲ یا واہ کیا بات ہے یا اﷲ تعالیٰ نصیب کرے نکلتا ہے تو یہ دعا ہوتی ہے۔

اسی طرح بددعا بھی انسان کے اندر سے نکلتی ہے اور اس کے لیے بھی کسی قسم کے لفظ نہیں چاہیے ہوتے‘ مظلوم بس ظالم کو دیکھتا ہے اور اﷲ تعالیٰ کے عدالتی نظام کے الارم بجنے لگتے ہیں‘ حضرت زین العابدینؒ نے کیا خوب فرمایا تھا ’’آپ تبلیغ کے لیے جا رہے ہیں‘ کوشش کریں آپ کو زبان سے تبلیغ نہ کرنا پڑے‘‘ آپ کے کہنے کا مطلب تھا مبلغ کا طرز عمل سب سے بڑی تبلیغ ہوتا ہے‘ انسان کو جب زبان سے تبلیغ کرنا پڑے تو اس کا مطلب ہوتا ہے اس کے پاس اپنے عمل سے دکھانے کے لیے زیادہ سامان موجود نہیں‘ دعا اور بددعا دونوں نظر سے ہوتی ہیں‘ آپ آنکھوں سے اﷲ کی نعمتیں دیکھیں‘ اس کا شکر ادا کریں اور کھل کر اﷲ تعالیٰ کی حمدوثناء کریں اور اس کے بعد اپنی پلیٹ کے کوفتے گنتے چلے جائیں‘ آپ گن گن کر‘ کھا کھا کر تھک جائیں گے لیکن قدرت کی عنایت نہیں تھکے گی‘ اﷲ تعالیٰ اپنا ہاتھ نہیں روکے گا اور یہ اﷲ تعالیٰ کا اصل سسٹم ہے۔

Back to top button