سب سے پہلے پاکستان کی بجائے سب سے پہلے عمران خان کیوں؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار انصار عباسی نے کہا ہے کہ عمران خان کی تحریک انصاف کی جانب سے ایک اہم ترین عالمی کانفرنس کے روز اسلام اباد میں احتجاج کا منصوبہ کھلم کھلا ملک دشمنی کے مترادف ہے۔ اب اگر احتجاج کی کال کو واپس بھی لے لیا جائے تو کوئی فائدہ نہیں چونکہ پی ٹی آئی کا بطور ایک سیاسی جماعت عوامی کی نظروں میں جو نقصان ہونا تھا وہ تو پہلے ہی ہو چکا ہے۔ ا پا کہنا یے کہ اب یہ تلخ حقیقت ثابت ہو چکی ہے کہ تحریک انصاف اپنے مفادات کے لیے قومی مفادات کو بھی داؤ پر لگانے سے باز نہیں آتی اور اس کے لیے سب سے پہلے پاکستان نہیں بلکہ عمران خان ہے۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں انصار عباسی کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کی طرف سے 15 اکتوبر کو ڈی چوک اسلام آباد میں احتجاج کی کال دینے کو اگر پاکستان دشمنی نہیں تو اور کیا کہا جائے۔ ایک ایسے وقت میں جب شنگھائی تعاون تنظیم میں شامل ممالک کی اعلیٰ قیادت تنظیم کی سمٹ میٹنگ کیلئے اسلام آباد میں موجود ہو گی، تحریک انصاف ڈی چوک اسلام آباد میں احتجاج کے نام پر ایک ایسا تماشا کرنا چاہ رہی ہے جسے خود پی ٹی آئی کے اندر موجود ایک طبقہ بھی پاکستان کے مفاد کے خلاف سمجھتا ہے۔ لیکن افسوس کہ پی ٹی آئی کی سیاسی قیادت میں ایسے افراد کی اکثریت ہے جن کیلئے اُن کی سیاست اور عمران خان پاکستان سے زیادہ اہم ہیں۔ زبانی طور پر اگر کسی نے یہ کہا کہـ’’ عمران نہیں تو پاکستان نہیں‘‘ لیکن عملی طور پر تحریک انصاف بار بار اپنے سیاسی مفادات کیلئے پاکستان کے مفادات پر حملہ آور ہو رہی ہے۔ اس کی کوئی ایک مثال نہیں بلکہ گزشتہ دو ڈھائی سال کے دوران یہی کچھ ہو رہا ہے۔
انصار عباسی کہتے ہیں کہ یاد کیجیے جب عمران حکومت کو یقین ہو گیا کہ اقتدار نہیں رہے گا تو آئی ایم ایف پروگرام کی سنگین خلاف ورزی اس لیے کی گئی کہ آنے والی پی ڈی ایم کی حکومت معیشت کو سنبھال نہ سکے جس کا سیاسی فائدہ تحریک انصاف کو ہو گا۔ عمران خان کے منصوبے کے عین مطابق بالکل ایسا ہی ہوا لیکن نقصان پاکستان اور عوام کا ہوا۔ جب عمران خان کی حکومت چلی گئی اور نئی حکومت نے آئی ایم ایف کے منت ترلے کر کے قرضہ کی بحالی کیلئے کوششیں شروع کیں اور معاہدہ ہونے کے قریب تھا تو اُس وقت شوکت ترین کی ایک آڈیو کال لیک ہوئی جس میں وہ تحریک انصاف کی پنجاب اور خیبرپختون خوا حکومتوں کے وزرائے خزانہ سے کہہ رہے تھے کہ آئی ایم ایف کی شرط کے خلاف وفاقی حکومت کو خط لکھ کر اُسے آئی ایم ایف کو لیک کر دیا جائے تاکہ معاہدہ نہ ہو سکے اور پاکستان کو سری لنکا جیسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے۔
انصار عباسی کہتے ہیں کہ ابھی چند ماہ قبل بھی جب پاکستان آئی ایم ایف کے ساتھ موجودہ پروگرام پر بات کر رہا تھا تو عمران خان نے آئی ایم ایف کو خط لکھ دیا تاکہ وہ قرضہ پاکستان کو نہ ملے جس کے بغیر پاکستان ڈیفالٹ سے نہیں بچ سکتا تھا۔ وہ سوال۔کرتے ہیں کہ کیا تحریک انصاف نے امریکی حکومت اور امریکی کانگریس کے ممبران کو پاکستان کی فوج کی امداد کو رکوانے کیلئے خطوط نہیں لکھے۔ کیا پی ٹی آئی کی جانب سے اسی نوعیت کے مطالبات یورپی ممالک سے نہیں کیے گئے۔ کیا پاکستانی فوج اور معیشت مسلسل تحریک انصاف کے نشانے پر نہیں ہے؟ حال ہی میں جب ملایشیا کے وزیراعظم پاکستان تشریف لائے تو تحریک انصاف نے اسلام آباد پر چڑھائی کر دی۔ اب جب کہ ایک لمبے عرصہ کے بعد پاکستان میں کئی ممالک کے وزرائے اعظم اور دوسری اعلیٰ قیادت تشریف لا رہی ہے، تحریک انصاف کی احتجاج کی کال کھلی پاکستان دشمنی کے مترادف ہے۔
انصار عباسی کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کا احتجاج کتنا پرامن ہوتا ہے اس کا بھی سب کو پتا ہے اور اس کی ایک تلخ تاریخ ہے۔ وہ کہتے ہیں میں عمران خان سے درخواست کروں گا کہ اپنے سیاسی مخالفین سے جو چاہے کریں لیکن پاکستان کو اپنے سیاسی اورذاتی مفادات کیلئے نقصان مت پہنچائیں۔ یہ وہ نکتہ ہے جو تحریک انصاف کی قیادت کو سمجھنا چاہیے ورنہ اُن کیلئے سختیاں نہ کم ہوں گی اور نہ ہی کوئی بھی ایسی سیاست کو قبول کر سکتا ہے جو ملک کو نقصان پہنچائے اور جس سے پاکستان کی دنیا میں بدنامی ہو اور جو پاکستان کی معیشت کو صرف اس لیے تباہ کرنے کے در پے ہو کہ اس کا فائدہ کسی ایک سیاسی جماعت یا رہنما کو ہو سکتا ہے۔ کوئی بھی سیاسی رہنما چاہے وہ کتنا ہی مقبول کیوں نہ ہو وہ کسی بھی صورت پاکستان سے بڑا نہیں اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت کے سیاسی مفاد کو پاکستان کے مفاد پر ترجیح دی جا سکتی ہے۔