ہر ماہ 2 ارب ڈالرز بارڈر پار افغانستان کیسے جاتے ہیں؟

پاکستان سے ہر مہینے دو ارب ڈالرز بارڈر بار افغانستان جانے کی وجہ سے ملک میں روپے کی ویلیو گرتی جا رہی یے اور ڈالر کی قدر بڑھتی جا رہی یے۔ اسکا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستانی معیشت تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے اور ملک کے دیوالیہ ہونے کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ پاکستان میں بگڑتی ہوئی اقتصادی صورت حال اور کمزور معیشت کا ذمہ دار جہاں ایک جانب حکومت کی تبدیلی اور عالمی منڈی میں افراط زر میں اضافے کو قرار دیا جا رہا ہے، وہیں دوسری جانب بعض حلقے افغانستان اور پاکستان کے مابین تجارت کی آڑ میں ڈالروں کی پڑوسی ملک مبینہ سمگل کو بھی وجہ بتاتے ہیں۔
ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین ملک بوستان نے دعویٰ کیا یے کہ سرکاری اور غیر سرکاری تجارت کی مد میں ہر مہینے پاکستان سے دو ارب سے زیادہ امریکی ڈالرز افغانستان منتقل ہو رہے ہیں۔ انکے مطابق اس مقصد کیلئے پاکستان اور افغانستان کے تجارتی معاہدے کو غلط طریقے سے استعمال کیا جا رہا ہے اور پاکستان اس کا خمیازہ زر مبادلہ کے ذخائر پر بوجھ کی صورت میں بھگت رہا ہے۔ ملک بوستان سے ان کے حالیہ دعوؤں سے متعلق دریافت کیا تو ان کے پاس اس کے دفاع کے لیے کوئی ثبوت تھا، نہ ہی وہ کوئی خاطر خواہ جواب دے سکے۔
تاہم انہوں نے الزام عائد کیا کہ پاکستانی امپورٹرز اور افغان ایکسپورٹرز غیر قانونی تجارت میں ملوث ہیں۔ بقول ملک بوستان: ’2010 میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان ہونے والے تجارتی معاہدے کے مطابق، افغانستان کے لیے آنے والے کنٹینرز پر کسٹم ڈیوٹی نہیں ہے اور صرف انشورنس ادا کی جاتی ہے، جبکہ پاکستان پہنچنے والی درآمدات پر دو سو فیصد سے زیادہ ڈیوٹی عائد کی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مال افغانستان کے نام پر پاکستان آتا ہے اور سرحد پار کروا کو وہی مصنوعات غیر قانونی راستوں سے واپس پاکستانی مارکیٹوں میں لائی جاتی ہیں اور پاکستانی امپورٹرز، افغان ایکسپورٹرز کو غیر قانونی طور پر ڈالرز میں ادائیگی کرتے ہیں۔‘
ملک بوستان نے مزید بتایا کہ پاکستان کو ہر مہینے تین ارب ڈالرز ترسیلات زر کی صورت میں موصول ہوتے تھے، جو اب ایک ارب ڈالرز کمی کے بعد محض دو ارب رہ گئے ہیں۔ انکے مطابق ہماری برآمدات اور ترسیلات زر میں ایک ارب ڈالرز کی کمی واقع ہوئی ہے اور یہ پیسہ جو پہلے پاکستان آتا تھا، اب حوالہ سسٹم کے ذریعے افغانستان بھیجا جا رہا ہے، جو پاکستان کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔
تاہم پاکستان فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے ملک سے ڈالرز کی غیر قانونی سمگلنگ کو ’بے بنیاد او بدنیتی پر مبنی پروپیگنڈا‘ قرار دیا ہے۔ ایف بی آر کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے درمیان دو طرفہ تجارت پہلے امریکی ڈالرز میں ہوتی تھی، لیکن اب یہ تجارت پاکستانی روپے میں کی جا رہی ہے۔ڈالرز کی سمگلنگ کو روکنے کی غرض سے ہوائی راستوں سے بیرون ملک جانے والے مسافروں کے لیے بھی ایئرپورٹ پر ساتھ لے جانے والی رقم کو ظاہر کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے۔‘ خیبر پختونخوا میں تاجروں اور صنعت کاروں کے نمائندہ ادارے سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر محمد اسحاق نے بھی دعویٰ کیا کہ پاکستان سے روزانہ لاکھوں ڈالر افغانستان سمگل ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا: ’ہر روز 20 لاکھ امریکی ڈالرز پاکستان سے افغانستان جا رہے ہیں، ہم عرصہ دراز سے چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں، لیکن کوئی ہماری سن ہی نہیں رہا۔ انہوں نے امریکی ڈالرز کی افغانستان غیر قانونی رسد کا الزام حکومتِ پاکستان پر لگاتے ہوئے کہا کہ حکومت اس معاملے کے حل میں سنجیدہ نہیں ورنہ ایک سینٹ بھی غیر قانونی طور پر منتقل نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ بارڈر پر کوئی عام آدمی نہیں کھڑا۔ افغانستان آمدورفت کے دروازوں پر فکسڈ کوریڈورز ہیں۔ آپ بتائیں کہ سمگلنگ پھر کیسے ممکن ہے؟ اکا دکا چھوٹے کرنسی ڈیلر کو پکڑنے سے کچھ نہیں ہوگا، مسئلے کی جڑ کو پکڑنا ہوگا۔
دوسری جانب وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے دو ہفتے قبل اسلام آباد میں وزیراعظم شہبازشریف اور دیگر وزرا کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب میں بتایا تھا کہ پاکستان سے ڈالر، گندم اور کھاد پڑوسی ملک میں سمگل ہو رہے ہیں اور اس سلسلے کو روکنے کے لیے بارڈر بھی سیل کرنا پڑا تو کیا جا سکتا ہے۔
عالمی بینک کے مطابق جولائی 2021 سے جون 2022 کے درمیان افغانستان اور پاکستان کے درمیان قانونی تجارت کا حجم قریباً 80 ملین ڈالر رہا اور پڑوسی ملک میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد کابل کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر پاکستان ہی رہا ہے۔ عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق اس عرصے میں افغانستان نے پاکستان کو لگ بھگ 80 کروڑ امریکی ڈالر کی برآمدات بھیجیں، جبکہ پاکستان سے افغانستان کو جانے والے سامان کی مالیت تقریباً 72 کروڑ ڈالر تھی۔ افغانستان پاکستان کو کوئلہ، ٹیکسٹائل، پھل، سبزیاں اور دیگر اشیائے خوردنی درآمد کرتا ہے جبکہ پاکستان سے جانے والی اشیا میں لکڑی، دوائیاں اور بعض اشیائے خوردنی شامل ہیں۔
افغانستان اپنی ضروریات صرف پاکستان سے پوری نہیں کرتا، بلکہ ایران، ازبکستان، تاجکستان، ترکمانستان اور روس بھی کابل کے ساتھ تجارت کرتے ہیں۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق پاکستان اور افغانستان میں تجارت پاکستان کے لیے فائدہ مند ہے اور اسلام آباد موجودہ معاشی مسائل پر افغانستان کے ساتھ تجارت کو فروغ دے کر قابو پا سکتا ہے۔ ان کے خیال میں پاکستان میں ڈالرز کی قلت کی وجہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کے کاروبار پر پابندی ہے، جس کے باعث تاجر اور ڈیلرز غیر ملکی کرنسی کو چھپا کر رکھتے ہیں۔ لہٰذا معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ سٹیٹ بینک کے زیر انتظام آسان شرائط پر ڈالر کا کاروبار کرنے والے صرافوں کو لائسنس کا اجرا کیا جائے کیونکہ اس سے ڈالر کی ٹرانزیکشن میں شفافیت آئے گی۔
