امریکی پاکستانیوں کی ISI چیف سے ملاقات : کیا عمران باہر آنے والا ہے ؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے انکشاف کیا ہے کہ امریکی نژاد پاکستانی ڈاکٹروں اور بزنس مینوں کے گروپ نے اڈیالہ جیل راولپنڈی میں عمران خان سے ملاقات کے علاوہ آئی ایس آئی چیف سے بھی ملاقات کی ہے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ ابھی بانی پی ٹی آئی کی جیل سے رہائی کا دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آتا جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی سٹریٹ پاور کھو چکے ہیں اور فیصلہ سازوں پر ان کی رہائی کے لیے کہیں سے کوئی دباؤ نہیں ہے۔

روزنامہ جنگ کے لیے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں سہیل وڑائج کہتے ہیں کہ تحریک انصاف فی الحال حکومت کیلئے کوئی بڑا چیلنج پیدا کرنے کی پوزیشن میں نہیں، لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ سب کچھ نارمل ہو چکا ہے۔ ملک میں تب تک معاشی عدم استحکام رہے گا جب تک سیاسی استحکام نہیں آ جاتا اور سیاسی استحکام تب آئے گا جب تحریک انصاف اور فیصلہ سازوں کے مابین مصالحت ہو گی۔ حالیہ دنوں میں حکومت میں کم اور تحریک انصاف کے حامیوں میں یہ احساس شدت سے جاگزیں نظر آ رہا ہے کہ پی ٹی آئی کو حالات معمول پر لانے کیلئے ایک قدم پیچھے ہٹنا پڑے گا، تبھی عمران خان کی رہائی ممکن ہوگی اور سیاست کا سفر شروع ہو پائے گا۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ حال ہی میں کچھ پاکستانی امریکیوں کو عمران خان اور ریاستی اداروں تک رسائی دی گئی، ان کی آئی ایس آئی کے سربراہ سے بھی ملاقات کی خبر چل رہی ہولے۔ اس حوالے سے جو تفصیل سامنے آئی ہے وہ پی ٹی آئی کا موقف ہے اس میں ریاستی موقف کا فقدان ہے، ان خوش فہم ملاقاتیوں نے تو سینیٹر اعجاز چودھری اور یاسمین راشد کی رہائی کا شیڈول تک دے دیا تھا۔ اس شیڈول کے مطابق تو 4 یا 5 اپریل کو ان قیدیوں کو رہا ہو جانا تھا، لیکن ایسا نہیں ہوسکا جس کا مطلب ہے کہ یہ ایک فرضی کہانی تھی۔

سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ جب میں نے جب مختلف ذرائع سے حالیہ ملاقاتوں کی تفصیل معلوم کی تو وہ بالکل مختلف نکلی۔ دراصل ریاست کے طاقتور فیصلہ سازوں نے واضح کر دیا ہے کہ جب تک فوجی قیادت اور ان کے گھر والوں کو گالیاں دی جائیں گی، تب تک کوئی مذاکرات نہیں ہو سکتے۔ تحریک انصاف والوں سے کہا گیا ہے کہ اعتماد سازی کیلئے سوشل میڈیا بریگیڈ کو کنٹرول کیا جائے، پھر ریاست بھی اعتماد سازی پر سوچ سکتی ہے۔ سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ میرا تو ایک سال سے دعویٰ رہا ہے کہ ریاست عمران خان کو جیل سے نکال کر بنی گالا بھیجنے پر تیار ہے مگر اس کیلئے شرط مکمل خاموشی اور اس خاموشی کی ضمانت ہے، اب بھی گفتگو اسی شرط کے گرد گھوم رہی ہے۔

سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ بشری بیگم دراصل اپنے شوہر عمران خان کو جیل سے نکال کر کہیں دور لے جانا چاہتی ہیں، لیکن دنیا کا کوئی ایسا ملک نظر نہیں آ رہا جو اس روحانی اور رومانوی جوڑے کو نہ صرف پناہ دے بلکہ ان کی ضمانت بھی دے۔ سچ تو یہ ہے کہ کسی ضامن کے بغیر باہر نکلنا مشکل ہے۔ انکا کہنا ہے کہ ٹھنڈے انصافی سڑکیں گرم کرنے سے تو پیچھے ہٹے ہوئے ہیں لیکن آپس کی لڑائیوں نے انہیں گرم وسرد سکھا دیا ہے۔ ایک طرف گنڈا پور اور خیبر پختونخوا میں گروپوں کی اندرونی لڑائی چل رہی ہے، جیل میں بند عمران خان سے کبھی ایک گروپ شکایتیں کرتا ہے اور کبھی دوسرا۔ شیر افضل کو بھی کبھی اِن کیا جاتا ہے اور کبھی آؤٹ کردیا جاتا ہے۔ چودھری فواد اور انکا بھائی فیصل چوہدری بھی اب عمران کی گڈ بکس میں نہیں رہے۔

سینیئر صحافی کے بقول عمران خان کا مخمصہ یہ ہے کہ وہ یہ سمجھنے کو تیار نہیں کہ تمام تر مقبولیت کے باوجود وہ انقلاب کیوں نہیں لا سکے؟۔ قدرتی طور پر ان کی خواہش ہے کہ وہ جیل سے نکلیں تو سیدھے اقتدار کی کرسی پر جا بیٹھیں۔ وہ سمجھتے ہوں گے کہ وہ اب بھی مقبول ہیں، اور آزمائشوں سے گزر چکے ہیں لہازا باقی مشکل وقت بھی کٹ ہی جائے گا۔ لیکن وہ چاہتے ہیں کہ جب ان کی آزمائش ختم ہو تو پھر انتظار نہ ہو بلکہ بس اقتدار ان کا منتظر ہو۔ تاہم بظاہر ایسا تب ہی ممکن ہے جب کوئی انقلاب آ جائے جس کا کوئی امکان نظرنہیں آتا۔

سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کی سرگرم سیاست کا اہم ترین پہلو سڑکوں کو گرم رکھنا رہا ہے۔ لیکن 26 نومبر کی رات تحریک انصاف کا احتجاج ناکام ہونے کے بعد یہ ثابت ہو چکا ہے کہ دراصل ووٹ کی طاقت اور سٹریٹ پاور دو مختلف چیزیں ہیں، اب لوگ عمران کی کال پر سڑکوں پر آنے کے لیے تیار نہیں۔ اس صورتحال میں تحریک انصاف کی ووٹرز پاور ہونے کے باوجود غیر متعلقہ ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اس ووٹرز پاور کے اندر سے کتنے ووٹرز ایسے ہیں جو سٹریٹ پاور کا حصہ بننے کو تیار ہیں؟۔ دراصل ووٹرز کا کام آسان ہوتا ہے، ووٹ ڈالا اور گھر  چلے گئے، یا پھر اپنے ڈرائنگ روم یا گلی کے نکڑ پر اپنی فیورٹ جماعت کی بول کر حمایت کر دی۔ لیکن سٹریٹ پاور میں حصہ ڈالنے والے اس ووٹر سے کہیں ذیادہ دلیر اور قربانیاں دینے والے ہوتے ہیں۔ نومبر 2024ء کے اسلام آباد دھرنے کے بعد سے تحریک انصاف سٹریٹ پاور سے محروم ہو چکی ہے، اب اس سے سڑکیں گرم نہیں رکھی جا رہیں، گویا انصافی ووٹرز کی پاور ٹھنڈی پڑ چکی ہے۔ ووٹرز سیاسی طور پر اب بھی عمران کے ساتھ ہوں گے، لیکن وہ سڑکیں گرم کرکے اپنی کمر پر تازیانے کھانے کیلئے تیار نہیں۔

عمران کی ہدایت پراعظم سواتی کی آرمی چیف سے رابطے کی ناکام کوشش

سہیل وڑائچ کے بقول، ایسے میں عمران خان کے لیے دوسرا راستہ مصالحت یا ڈیل کا ہے، ظاہر ہے ڈیل میں طاقت ور کا پلہ بھاری ہوتا ہے اور اس وقت فوج طاقت میں ہے۔ ایسے میں فوجی قیادت چاہے گی کہ عمران خاموش ہو کر اگلے الیکشن تک سکون سے انتظار کرے اور حکومت اور معیشت کو چلنے دے، دوسری طرف کپتان اور اس کے حامی چاہتے ہیں کہ خان اور اسیران جلد از جلد باہر آئیں اور آناً فاناً نئے الیکشن ہوں تاکہ وہ دوبارہ سے اقتدار میں آ جائیں۔ حقیقت پسند اور معقولیت پسند سب یہ سمجھتے ہیں کہ درمیانہ حل یہی ہے کہ خان جیل سے نکل کر فوج کے زیر سایہ قائم موجودہ حکومت کو چلنے دے۔ اس وقت ملک کو ڈھیروں چیلنجز درپیش ہیں جن میں دہشت گردی کا مسئلہ سب سے بڑا ہے۔ ملکی استحکام کیلئے غیر ملکی سازشوں کیخلاف حکومت اور اپوزیشن کا مل کر چلنا ضروری ہے۔ ملک کو آگے چلانے کا واحد راستہ یہی ہے اگر کوئی سمجھے تو…

Back to top button