گلی گلی میں چھری بردار قصائی

تحریر : عطا ء الحق قاسمی ۔۔۔۔ بشکریہ روزنامہ جنگ

ہم سال کے تین سو پینسٹھ دنوں میں سے تین دن بکروں کے درمیان گزارتے ہیںمگر ایک دوست کا کہنا ہے کہ یہ سب نظر کا دھوکا ہے ہم دراصل پورا سال ہی بکروں اور بکریوں کے ساتھ بسر کرتے ہیں۔ خیر ان فروعی اختلافات میں پڑے بغیر بتانا ہم یہ چاہتے ہیں کہ عیدالاضحیٰ کے یہ تین دن ہم نے بخیرو خوبی گزار لئے ہیں اور سبحان اللّٰہ ان دنوں میں ہم نے کیسا کیسا بکرا اور کیسی کیسی بکری نہیں دیکھی ہے؟ بڑے بڑے قد آور بکروں کو میں نے دیکھا کہ چھری سامنے دیکھی تو بکری بن گئے۔ ایک جگہ ایک عجیب منظر نظر آیا، میرے ایک دوست نے پانچ چھ بکرے قربانی کیلئے قطار اندر قطار کھڑے کئے ہوئے تھے جب پہلے بکرے پر چھری پھیری گئی تو اس کے برابر میں کھڑے بکرے نے منہ دوسری طرف پھیر لیا ،جب اس پر چھری چلی تو تیسرے بکرے نے منہ پھیر لیا حتیٰ کہ ایک ایک کر کے سارے بکرے چھری تلے آتے گئےبس یہیں ہمیں انسانوں اور بکروں میں مماثلت نظر آئی کہ جب ایک انسان دوسرے انسان پر چھری چلتے دیکھتا ہے تو وہ منہ دوسری طرف پھیر لیتا ہے جب خود اس پر چھری چلتی ہے تو اس کا ساتھی منہ دوسری طرف کر لیتا ہے اور حتیٰ کہ ایک ایک کر کے سبھی چشم پوشی کے طفیل اپنے منکے تڑوا بیٹھے تھے۔اس عید کے موقع پر ایک بات میں نے یہ بھی نوٹ کی کہ بعض لوگوں نے قربانی کے معاملے میںخسَّت کا ثبوت نہیں دیا بلکہ جس کی جتنی توفیق تھی اس کے مطابق وہ اس کارخیر میں شریک ہوا، چنانچہ چالیس ہزار روپے سے لے کر چار لاکھ روپے تک کی مالیت کے بکروں کی قربانی دی گئی اور آپ یقین جانیں یہ سب کچھ دیکھ کر مجھے حقیقی مسرت ہوئی ورنہ مجھے تو یہ شبہ گزرنے لگا تھا کہ ہماری قوم میں اب قربانی دینے کا جذبہ ہی نہیں رہا مگر بحمدللّٰہ ایسی کوئی بات نہیں بلکہ آج بھی اگر قربانی کی ضرورت پڑے تو ہم فوراً قربانی کے بکروں کو آگے کر دیتے ہیں!

ویسے یہ طبعاً شریف النفس واقع ہوئے ہیں، عید سے ایک روز پہلے جب ہم دوست بکرا خریدنے کیلئے بازار گئے تو ایک ریوڑ دیکھا جس میں سینکڑوں بکرے ایک دوسرے کے کاندھے سے کاندھا ملائے اور گردنیں جھکائے چلے جا رہے تھے۔ ریوڑ کے مالک نے ہمیں دیکھا تو بکروں کو رک جانے کا اشارہ کیا چنانچہ سینکڑوں بکرے گردنیں جھکا کر اپنی اپنی جگہ پر کھڑے ہو گئے میں نے ان بکروں کو ٹٹولنا شروع کیا، ان کی پسلیوں میں اپنی انگلیاں چبھوئیں ،ان کا منہ کھول کر ان کے دانت دیکھے اور اس طرح کے باقی اشاروں کنایوں سے انہیں سمجھایا کہ میں انہیں ذبح کرنے کے ارادے سے خریدنے آیا ہوں مگر ان کے صبر و تحمل کے کیا کہنے بلکہ جب میں نے ان کے مالک سے بھائو تائو شروع کیا اس وقت بھی کسی کی نظروں میں ملال یا بدگمانی نظر نہ آئی بلکہ وہ اسی طرح سر جھکائے کھڑے رہے حتیٰ کہ میں نے ایک بکرے پر انگلی اور پیسے مالک کی ہتھیلی پر رکھ دیئے جس پر اس نے مطلوبہ بکرے کو کان سے پکڑ کر ریوڑ میں سے الگ کیا اور میرے سپرد کر دیا۔ اس وقت میرے ذہن میں ایک بات آئی اور وہ یہ کہ ایسے شریف النفس بکروں کی ماں واقعی کب تک خیر منا ئے گی؟؟

اور ہاں اس عید پر میں نے ایک اور کاروبار بھی عروج پر دیکھا اور وہ قربانی کے بکروں کا کڑاہی گوشت اور ران روسٹ کرنے کا کاروبار ہے۔ میں نے اس مضمون کے بینرز جگہ جگہ دیکھے کہ ہم ارزاں نرخوں پر ران روسٹ کرتے اور کڑاہی گوشت بناتے ہیں چنانچہ اس دفعہ بکروں کی رانیں اور گوشت فریزر میں کم اور تپتی ہوئی آگ پر شاید زیادہ دیکھیں،یار لوگ اسکوٹروں اور کاروں کی ڈگیوں میں رانیں بھر بھر کے ان مقامات پر لائے تھے ،میں نے جب یاروں کو اسی طرح مصروف دیکھا تو ایک بار پھر خوشی ہوئی کہ چلو بالآخر ترقی کا ایک مرحلہ یہ بھی طے ہوا، اگلے برس اللّٰہ نے چاہا تو بازاروں میں سالم بکرے بھوننے کے بینرز لگے ہوں گے اوریہ قربانی کا گوشت ادھر سے ادھر کرنے کا جو رواج ہے اس سے بھی جان چھوٹے گی۔

اپوزیشن والے صرف اپنے مفادات کے ساتھ ہیں،خواجہ آصف

 

اس دفعہ ایک بات اور نوٹ کی کہ یوں تو قصائیوں کی پذیرائی ہر دور میں ہوتی ہے مگر اس بار تو میں نے انہیں پہلے سے کہیں زیادہ ذیشان پایا۔عید سے کئی روز پہلے ان سے پبلک ریلیشنگ شروع کر دی گئی اور عید کی نماز سے پہلے تو ان کے گرد وہ ہجوم اکٹھا ہو ا کہ لگتا تھا مرشد کے گرد مرید جمع ہیں۔ ان میں سے ہر ایک اس امر کا خواہشمند تھا کہ عید کی نماز کے فوراً بعد اس کا بکرا ذبح کیا جائے۔ میرا قصائی مجھ پر بہت مہربان تھا اس نےبھرے مجمع میں مجھے آنکھ ماری اور سر کو ہلکی سی بائیں جانب جنبش دی جس کا مطلب تھا کہ جا بچّے ، تیرا کام ہو گیا ہے۔ اب جا کر بکرے کو پانی پلا، اس کے سر پر ہاتھ پھیر، اس کا ماتھا چوم، ہم چھری لےکر پہنچ رہے ہیں۔ سواس روز صورتحال یہ تھی کہ جس گھر میں قصائی چھری لے کر داخل ہوتا تھا اس گھر کے بھاگ جاگ اٹھتے تھے۔ اس روز یوں لگتا ہے کہ پوری قوم قصائیوں کی محبت میں گرفتار ہو گئی ہے۔ جب یہ بات میں نے اپنے اس دوست سے کہی جس نے کہا تھا کہ ہم سال میں تین دن نہیں بلکہ پورا سال بکروں اور بکریوں کے درمیان بسر کرتے ہیں تو اس نے ایک بار پھر نفی میں سر ہلایا اور کہا ہم لوگ سال میں ایک دن نہیں بلکہ وقفے وقفے کے بعد اپنی پوری تاریخ میں قصائیوں کی محبت میں گرفتار نظر آتے ہیں! یقین نہ آئے تو تاریخ کی کوئی بھی کتاب اٹھا کر دیکھ لو!‘‘

اور اب آخر میں عہد ساز شاعر ظفر اقبال کی تازہ غزل جو انہوں نے از راہ محبت میرے کالم کیلئے مجھے عطا کی۔

میرے لگے ہوئے نہ تمہارے لگے ہوئے

کچھ اور لوگ ہیں یہ کنارے لگے ہوئے

جیسے کھلے ہوں پھول مرے آسمان پر

اور ہوں مری زمیں پہ ستارے لگے ہوئے

تم نے تو کر دیا تھا الگ ہم کو ایک بار

ہم ہیں تمہارے ساتھ دوبارے لگے ہوئے

رکھنے لگا ہے کوئی ہمارا خیال بھی

اپنے بھی ہیں یہاں پہ گزارے لگے ہوئے

کرنا نہیں ہے ہم نے بھی مرضی سے اپنی کچھ

ہم کو بھی ہیں کسی کے اشارے لگے ہوئے

بھاگے ہوں جیسے چیز اٹھا کر کسی کی ہم

پیچھے ہیں سارے لوگ ہمارے لگے ہوئے

ہونا تھا ایک دن یہی، دیوار شہر پر

ہیں اشتہار آپ کے بارے لگے ہوئے

پھیلی ہوئی ہے آج محبت وبا کی طرح

اس کام پر ہیں سارے کے سارے لگے ہوئے

تصویر خانہ سی ہے فضا ہر طرف، ظفر

ایسے ہیں چوکھٹوں میں نظارے لگے ہوئے

Back to top button