بلوچستان: کثیرالجماعتی کانفرنس، سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ

بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل (بی این پی-ایم) کی جانب سےلکپاس میں کثیر الجماعتی کانفرنس میں قومی سلامتی کونسل کے حالیہ فیصلے بالخصوص اس کی سخت گیر پالیسی کومسترد کرتےہوئےتمام خواتین کارکنوں،رہنماؤں اور کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا۔

سرداراختر مینگل کی زیرصدارت ایم پی سی نےمشترکہ لک پاس اعلامیہ جاری کیا اورکانفرنس میں شرکت کرنےوالےمختلف سیاسی جماعتوں کےرہنماؤں کے اتفاق رائےسے 9 قراردادیں منظورکی گئیں، کانفرنس کئی گھنٹوں تک جاری رہی۔

مشترکہ اعلامیے میں 1948 میں بلوچستان کے پاکستان کےساتھ الحاق کی دستاویز سےمتعلق آئینی تحفظ پر عمل درآمد کا مطالبہ کیا گیا اور دیرینہ مسائل کے حل کے لیے قومی سطح پرمذاکرات پر زوردیا گیا۔

سیاسی جماعتوں کےرہنماؤں نےاپنی تقاریرکےدوران کہا کہ بلوچستان کےمسئلےکےحل کے لیےسخت ریاستی پالیسی اپنانے سے مزید بدامنی پھیلے گی اور صورتحال مزید خراب ہوگی، حکومت ایسی سخت پالیسی اختیار کرنےسےگریزکرےاور آئین پر عمل درآمد کے ذریعے بلوچستان کا مسئلہ حل کرے۔

کانفرنس میں جمعیت علمائے اسلام کےدونوں دھڑوں، نیشنل پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، جماعت اسلامی، پشتون تحفظ موومنٹ، نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ، مجلس وحدت المسلمین، جےیوآئی (شیرانی گروپ)، بلوچستان ٹریڈرز ایسوسی ایشن،بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی)، جمہوری وطن پارٹی اور دیگر سیاسی و قبائلی شخصیات نے شرکت کی۔

کانفرنس میں شریک جماعتوں نے جمہوری تحریکوں کودبانےکی مذمت کی اورڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سمیت بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں کی گرفتاریوں پر شدید تنقید کی۔

اسلام آباد ہائیکورٹ: نئےتعینات ہونے والے ججز کا سینئر ججوں سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ

 

کانفرنس کےمطالبات

کثیرالجماعتی کانفرنس میں منظورکی گئی ایک قرارداد میں لانگ مارچ اوردھرنےکے دوران بی این پی اوربی وائی سی کے رہنماؤں اورکارکنوں کو ہراساں کرنے اورگرفتاریوں کی مذمت کی گئی۔

قرارداد میں وڈھ میں پرامن احتجاج کےدوران کارکن عنایت اللہ لہری کےقتل کی مذمت کی گئی اورذمہ داروں کےخلاف فوری قانونی کارروائی کامطالبہ کیا گیا۔

درخواست میں عمران خان، علی وزیر، ڈاکٹر یاسمین راشد اورسندھ سےتعلق رکھنےوالےکینال تحریک کےکارکنوں سمیت ملک بھر کےتمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا گیا۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت بلوچستان میں اپنی جارحانہ پالیسیاں ختم کرے جن میں فوجی آپریشنز، جبری گمشدگیاں اور امن عامہ برقرار رکھنے کے قانون کےتحت گرفتاریاں شامل ہیں۔

دیگر مطالبات میں مائنز اینڈ منرلز ایکٹ 2025 کی منسوخی، پی پی ایل معاہدہ ختم کرنا، ریکوڈک منصوبے میں بلوچستان کے 50 فیصد حصے کو تسلیم کرنا، قومی شاہراہوں،سرحدی علاقوں اور ایف سی، کوسٹ گارڈز اور دیگر وفاقی ایجنسیوں کے زیر انتظام استحصالی چیک پوسٹوں کا خاتمہ شامل ہے۔

کثیر الجماعتی کانفرنس میں بلوچستان کے مسائل کے حل کےلیے قومی سطح پر مذاکرات، 1948 کے الحاق کے معاہدے سے منسلک آئینی تحفظ کے نفاذ اور ناقص حکومتی پالیسیوں کی وجہ سےکسانوں، تاجروں، ٹرانسپورٹرز اور کاروباری مالکان کو ہونے والے اربوں کے نقصانات کی تلافی کا مطالبہ بھی شامل تھا۔

کانفرنس سے سردار اختر مینگل، مولانا عبدالغفور حیدری، سردارکمال خان بنگلزئی، اصغر خان اچکزئی، عبدالمتین اخونزادہ، میر اسرار اللہ زہری، نواب محمد خان شاہوانی اور دیگر نےخطاب کیا۔

Back to top button