تحریک لبیک سے پابندی ہٹانے کے لئے قانونی مراحل نظر انداز


ریاست پاکستان نے تحریک لبیک پاکستان کو کالعدم تنظیموں کی فہرست سے نکالنے کے لیے جس جلد بازی کا مظاہرہ کیا ہے اس پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ ایسا کرتے ہوئے تمام قانونی مراحل کو نظر انداز کیا گیا ہے جس کا فائدہ دیگر کالعدم تنظیمیں اٹھائیں گی اور خود پر عائد پابندی ہٹانے کے لیے مثال کے طور پر استعمال کریں گی۔
حکومتِ پاکستان کی جانب سے تحریکِ لبیک کو کالعدم تنظیموں کی لسٹ سے نکالے جانے کے بعد اسکی قیادت نے وزیر آباد میں جاری دھرنا ختم کر دیا ہے اور اب اپنے قائد علامہ سعد رضوی کی رہائی کی تیاری میں مصروف ہوگئے ہیں۔ دھرنا ختم کرنے کا فیصلہ تنظیم کی چودہ رکنی مجلس شوریٰ کے ارکان نے کیا جبکہ اسکا اعلان انجینیئر حفیظ اللہ علوی کی قیادت میں تین رکنی کمیٹی کے ارکان نے دھرنے کے مقام پر جا کر کیا۔ شوری کی جانب سے کہا گیا کہ ’تحریک کے نام سے کالعدم ہٹایا جا چکا ہے، فورتھ شیڈول سے نام نکال دیے گے ہیں اور فرانسیسی سفیر کی بےدخلی کے لیے ایک کمیٹی کے قیام پر کام شروع ہو چکا ہے۔ حکومت کی طرف سے تحریک لبیک کو کالعدم جماعتوں کی لسٹ سے نکالنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا اس میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ٹی ایل پی نے ملکی آئین اور قانون کی پاسداری کرنے کے ساتھ ساتھ مستقبل میں اس طرح کے احتجاجی مظاہرے نہ کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے اس لیے پنجاب حکومت کی سفارش پر اس تنظیم کا نام کالعدم جماعتوں کی فہرست سے نکلا جا رہا ہے۔
خیال رہے کہ وفاقی حکومت کی طرف سے تحریک لبیک کا نام کالعدم جماعتوں کی فہرست سے نکالنے کے حوالے سے ایک نوٹیفکیشن جاری تو کر دیا ہے تاہم دہشت گردی سے نمٹنے کے قومی ادارے یعنی نیکٹا کی ویب سائٹ پر ابھی تک تحریک لبیک کا ابھی تک کالعدم جماعتوں کی فہرست میں موجود ہے اور کالعدم جماعتوں میں یہ جماعت 79ویں نمبر پر موجود ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پابندی ختم کرنے کا قانونی طریقہ کار نہیں اپنایا گیا اور تمام عمل جلدی میں مکمل کیا گیا۔ قانونی دہشت گردی سے نمٹنے کے قومی ادارے میں تعینات ایک اعلیٰ پولیس افسر نے تبایا کہ ایسی کوئی بھی جماعت جو کہ پرتشدد ہو اور اس کا نام کالعدم تنظیموں کی فہرست میں شامل ہو تو اس کو نکالنے کے لیے ایک طریقہ کار موجود ہے۔ انھوں نے کہا کہ جن علاقوں میں کالعدم جماعت یا تنظیم متحرک ہو تو ان علاقوں میں موجود پولیس، انٹیلیجنس بیورو اور فوج کے خفیہ اداروں کے اہلکار اس جماعت یا تنظیم کے متحرک کارکنوں کے حوالے سے الگ الگ رپورٹس متعلقہ ضلع کے ڈپٹی کمشنر کو بجھواتے ہیں جس کے بعد متعلقہ شہر کا ڈپٹی کمشنر ان رپورٹس کی روشنی میں اپنی رائے قائم کرنے کے بعد ہوم ڈیپارٹمنٹ کو رپورٹ بجھواتے ہیں اور اس رپورٹ کے ساتھ سویلین اور فوج کے خفیہ اداروں کی رپورٹس بھی شامل ہوتی ہیں۔
نیکٹا ذرائع کے مطابق خفیہ اداروں کی طرف سے کسی بھی کالعدم جماعت کے کارکنوں کے بارے میں رپورٹ عمومی نوعیت کی نہیں ہوتی بلکہ ایک ایک کارکن کی گزشتہ تین سے چار ماہ کے دوران حرکات وسکنات کا جائزہ لے کر رپورٹ تیار کی جاتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہوم ڈیپارٹمنٹ کو رپورٹس شہر کے ڈپٹی کمشنر بھجواتے ہیں اور اگر کسی تنظیم کا نام کالعدم جماعتوں کی فہرست سے نکالنا ہو تو اس بارے میں جو رپورٹ ہوم ڈیپارٹمنٹ کو بھجوائی جاتی ہے اس کا تجزیہ کرنے کے لیے یہ رپورٹ ٹیکٹا کو بھی بھجوائی جاتی ہے جس کا تجزیہ کرنے کے بعد کسی جماعت کا نام کالعدم جماعتوں کی فہرست سے نکالنے یا برقرار رکھنے کے بارے میں وفاقی حکومت کو رائے دی جاتی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اگر اس سارے عمل میں تیز رفتاری سے بھی کام کیا جائے تو کم از کم دو سے تین ماہ درکار ہوتے ہیں۔ نیکٹا ذرائع کا کہنا تھا کہ تحریک لبیک کے معاملے میں ایسا کچھ نہیں کیا گیا اور اس جماعت کو کالعدم جماعتوں کی فہرست سے نکالنے کے بارے میں اتنا کچھ اتنی جلد بازی میں کیا گیا ہے کہ اب سپاہ صحابہ جیسی کالعدم تنظیمیں بھی خود پر عائد پابندی ہٹانے کے لئے اس مثال کا سہارا لیں گی اور عدالت چلی جائیں گی۔ یاد رہے کہ سپاہ صحابہ کے مرکزی رہنما علامہ اورنگزیب فاروقی نے حکومت کو وارننگ دی ہے کہ اگر فوری طور پر ان کی تنظیم پر عائد پابندی ختم نہ کی گئی تو پھر وہ بھی سڑکوں پر آ جائیں گے۔
وفاقی حکومت کی جانب سے لبیک کے ساتھ کیے گئے خفیہ معاہدے کے تحت تنظیم پر عائد پابندیاں ختم کرنے کا جو فیصلہ کیا گیا ہے اس کے تحت اسے غیر کالعدم قرار دینے کے علاوہ اسکے رہنماؤں اور کارکنوں کی رہائی بھی شامل ہے۔ معاہدے کے بعد تنظیم کے 2000 سے زائد کارکنوں کی رہائی عمل میں آئی ہے تاہم تنظیم کے امیر سعد رضوی تاحال نظربند ہیں۔ یاد رہے کہ تحریک لبیک کے سربراہ کو خدشہ نقص امن کے تحت نظر بند نہیں کیا گیا بلکہ ان کی نظربندی انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت عمل میں لائی گئی تھی۔ لاہور ہائی کورٹ نے سعد رضوی کی نظربندی کو ختم کرنے کا حکم دیا تھا تاہم پنجاب حکومت نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا جس نے نظربندی کے خاتمے کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے یہ معاملہ دوبارہ لاہور ہائی کورٹ کو بھیج دیا تھا اور ساتھ یہ حکم بھی جاری کیا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کا ڈویژن بینچ اس معاملے کو دیکھے۔ تاہم حکومت سے معاہدہ طے پا جانے کے بعد اب تحریک لبیک نے لاہور ہائی کورٹ میں دائر درخواست واپس لے لی ہے کیونکہ سعد رضوی کو ان کے والد خادم حسین رضوی کی 19 نومبر کو ہونے والی برسی سے پہلے رہا کیے جانے کا امکان ہے۔

Back to top button