جسٹس منصور شاہ کو امریکہ یا ترا کے لیے چھٹی کیوں نہیں ملی ؟

 

سپریم کورٹ حالیہ کچھ عرصے سے اندرونی اختلافات اور آئینی سوالات کی زد میں ہے۔ سینئر ججز کے مابین تناؤ،بڑھتی کشمکش اور عدالتی امور کی انجام دہی کے طریقہ کار پر اٹھتے سوالات کی وجہ سے عدالت عظمیٰ میں گروپنگ کھل کر سامنے آ گئی ہے۔ تازہ پیشرفت کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی نے اعلیٰ عدلیہ کو مسلسل تنازعات کا شکار کرنے والے عمرانڈو جسٹس منصور علی شاہ کو امریکہ یاترا کیلئے اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے۔

ذرائع کے مطابق جسٹس منصور شاہ کو گزشتہ ماہ امریکی ییل یونیورسٹی کے لاء اسکول نے10 سے 13 ستمبر تک گلوبل کانسٹیٹیونلازم 2025 میں شرکت کی دعوت دی تھی۔جسٹس منصور شاہ نے گزشتہ پانچ سال سے تقریب میں شرکت کیلیے مدعو کیا جا رہا ہے، جس میں دنیا بھر سے سینئر جج اور ییل، ہارورڈ اور پرنسٹن یونیورسٹیوں نے نامور اسکالرز شرکت کرتے ہیں۔

رواں سال تقریب میں جسٹس منصور شاہ نے ’’منصوعی ذہانت اورمنصفی‘‘ پر مقالہ پیش کرنا تھا، ییل لاء سکول نے بھی چیف جسٹس آفریدی سے جسٹس منصور شاہ کو سرکاری طور پر نامزد کرنے کی تحریری درخواست کی تھی، جسٹس شاہ نے 6 اگست کو یہی درخواست چیف جسٹس آف پاکستان کو فارورڈ کی تھی تاہم چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی نے ایک بار پھر جسٹس منصور علی شاہ کو امریکہ میں کالج کیتقریب میں شرکت کیلیے این او سی دینے سے انکار کر دیا ہے۔

اس حوالے سے بیل لاء سکول کو رجسٹرار سپریم کورٹ نے جواب میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ جسٹس منصور علی شاہ کو تقریب میں شرکت کی سہولت دینے کی پوزیشن میں نہیں،کیونکہ 8 ستمبر کو عدالتی سال کا آغاز ہوتا ہے، جس میں جامع فل کورٹ سیشن میں سالانہ پروگرام کے جائزے سمیت اہم ادارہ جاتی تقریبات اور وکلاء برادری کیساتھ رابطے کی ایک روایت موجود ہے۔  نئے عدالتی سال کی افتتاحی تقریب میں تمام ججوں کی شرکت اجتماعی غوروغوض، ترجیحات کے تعین اور ادارہ جاتی سمت کیلئے ناگزیرہوتی ہے۔ اس صورتحال میں سپریم کورٹ جسٹس منصور علی شاہ کو پروقار تقریب میں شرکت کی سہولت دینے کی پوزیشن میں نہیں۔

ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ جسٹس منصور علی شاہ نے 15اگست کو بھی ایک خط میں چیف جسٹس سے این اوسی جاری کرنے کی درخواست کی تھی۔ تاہم ان کی یہ درخواست بھی مسترد کر دی گئی تھی۔

خیال رہے کہ جسٹس منصور علی شاہ کے چیف جسٹس یحیٰی آفریدی سے اختلافات کوئی نئی بات نہیں، جسٹس یحیٰی آفریدی کے چیف جسٹس آف پاکستان بننے کے بعد سے جسٹس منصور علی شاہ انتشاری کارروائیاں کرتے چلے آ رہے ہیں۔ خود کو عدالتی اصلاحات کا علمبردار قرار دینے والے جسٹس منصور علی شاہ اپنی روش اور طرزِ عمل کے باعث نہ صرف اپنے ادارے کے اندر بلکہ عوامی حلقوں میں بھی سخت تنقید کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ ناقدین کے مطابق جسٹس منصور علی شاہ کے رویے سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ وہ ادارے کے بجائے اپنی ذات کو مقدم رکھتے ہیں۔ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کے فیصلوں پر بار بار اعتراض اور ان کی انتظامی رٹ کو چیلنج کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اپنی انا کے اسیر ہو چکے ہیں۔ ایک جج کے منصب کا تقاضا برداشت، وقار اور خاموش خدمت ہے نہ کہ بار بار میڈیا کی شہ سرخیوں میں آنا۔ تاہم جسٹس شاہ اپنی تشہیر کا کوئی موقع ضائع کرتے نظر نہیں آتے۔

ناقدین کے مطابق جسٹس شاہ ہمیشہ عدالتی اصلاحات کی بات کرتے دکھائی دیتے ہیں تاہم عملاً ان کے اقدامات صرف انتشار کو ہوا دیتے ہیں۔ این او سی کے تنازعے کو جس طرح انہوں نے ایک ذاتی لڑائی میں بدل دیا، اس سے یہ سوال جنم لیتا ہے کہ کیا یہ سب عدالتی شفافیت کے لیے تھا یا ذاتی ایجنڈے کے لیے؟ چیف جسٹس کے عہدے کی عزت محض ایک فرد کی نہیں بلکہ ادارے کی عزت ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ شاید بھول گئے ہیں کہ اختلاف رائے عدلیہ کے اندر رہ کر بھی کیا جا سکتا ہے، اسے ذاتی انا کی جنگ بنانا ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچاتا ہے۔ مبصرین کا مزید کہنا ہے کہ جسٹس منصور علی شاہ عدالتی اصلاحات کے دعوے دار ہیں، مگر ذاتی ایجنڈے اور انا پرستی کی وجہ سے ان کے عملی اقدامات زیادہ تر انتشار، شکوک و شبہات اور ذاتی انا کے گرد گھومتے ہیں۔ جسٹس شاہ کے رویے نے عدلیہ کے اندر تقسیم کو گہرا کرتے ہوئے ہمیشہ عوامی اعتماد کو مزید مجروح کیا ہے۔

Back to top button

Adblock Detected

Please disable the adblocker to support us!