کیا نازک اعضا پر گولیاں چلانے سے جنسی جرائم ختم ہو جائیں گے؟

پچھلے دو ماہ میں پنجاب کے مختلف اضلاع میں جنسی جرائم میں ملوث درجن بھر ملزمان اپنے نیفوں میں چھپائے گئے پستول چلنے سے مردانہ صفات سے محروم ہو چکے ہیں اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے، ایسے میں یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا پنجاب پولیس کا یہ نیا ہتھکنڈا جنسی جرائم کے خاتمے کا باعث بن پائے گا یا نہیں؟
اہم بات یہ ہے کہ جنسی جرائم میں ملوث ملزمان کیساتھ پیش آنے والے ہر حادثے میں ملزم مرد تھا جسکے نیفے کے پستول سے اچانک چلنے والی گولی اس کے عضو تناسل پر ہی لگی۔ ایسے واقعات میں پائی جانے والی حیران کن مماثلت سوشل میڈیا پر مسلسل موضوع بحث ہے۔ بعض صارفین کے نزدیک تو پنجاب پولیس کا یہ نیا حربہ جنسی جرائم کے خاتمے کی جانب سیک ’’مؤثر قدم‘‘ ہے، لیکن قانونی ماہرین اس طرح کے واقعات کو ”ماورائے عدالت سزائیں‘‘ قرار دیتے ہوئے انہیں غیر انسانی قرار دے رہے ہیں۔
25 جولائی کو سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی، جس میں ایک نوجوان ایک کمسن بچی سے نازیبا حرکات کر رہا تھا۔ یہ ویڈیو قصور کی تھی۔ پولیس کے مطابق جب اس ملزم کو گھیرنے کے بعد گرفتار کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی تو اس نے اپنی شلوار کے نیفے سے پستول نکالنے کی کوشش کی۔ اس دوران ’’اچانک‘‘ پستول کا ٹریگر دب گیا اور اس کا عضو تناسل گولی کی زد میں آ کر ناکارہ ہو گیا۔ یعنی ملزم کے اپنے ہی ہتھیار نے اس کے ہتھیار کو ناکارہ کر دیا۔ اسی طرح 22 اگست کو قصور میں ہی ایک اور ملزم اپنے ہی پستول کی گولی چلنے سے نا مرد ہو گیا۔ اس کے بعد 24 اگست کو ملتان، 31 اگست کو وہاڑی اور 2 ستمبر کو لاہور میں بھی جنسی جرائم کے ملزمان گرفتاری کے دوران اپنے ہی پستول چلنے سے اپنے نازک اعضا سے محروم ہو گے۔ ان میں سے کچھ زخمی ملزمان کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہیں جن میں ان کی شلواریں خون سے رنگین دکھائی دیتی ہیں۔
تازہ ترین واقعہ 5 ستمبر کو سیالکوٹ میں پیش آیا، جہاں ایک ماں اور اس کی بیٹی کو ہراساں کرنے والا شخص اپنے نیفے میں رکھے ہوا پستول چل جانے کے باعث زخمی ہو گیا۔
ان تمام واقعات میں حیران کن مماثلت پائی جاتی ہے اور صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پنجاب پولیس جنسی جرائم میں ملوث ملزمان کے ہتھیار منصوبہ بندی کے تحت ناکارہ کر رہی ہے۔ پولیس کی جانب سے بظاہر یہ طے شدہ حکمت عملی اپنانے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارا عدالتی نظام بہت کمزور ہے اور ایسے ملزمان اکثر سزاؤں سے بچ جاتے ہیں۔
مبصرین کہتے ہیں کہ وزیر اعلی مریم نواز نے سنگین جرائم میں ملوث ملزمان کو جعلی مقابلوں میں پار کرنے کے لیے ایک نیا محکمہ کھڑا کر دیا ہے جس کا نام کرائمز کنٹرول ڈیپارٹمنٹ یعنی سی سی ڈی ہے۔ اس نئے محکمے کے تحت ہونے والی ماورائے عدالت کاروائیوں کا بنیادی مقصد خوف پھیلا کر جنسی جرائم کم کرنا ہے، لیکن ناقدین کہتے ہیں کہ قانون سے بالا ایسی سزائیں مزید جرائم کی راہیں کھول دیتی ہیں۔ وہ یاد دلاتے ہیں کہ ماضی میں جب وزیر اعلی شہباز شریف کے دور میں فرقہ وانہ جرائم میں ملوث ملزمان کو ختم کرنے کے لیے یہی حکمت عملی اپنائی گئی تھی تو کئی بے گناہ صرف اس لیے مارے گئے کہ پولیس پیسے پکڑ کر جعلی انکاؤنٹر کر دیتی تھی۔
حالیہ مہینوں میں اس طرح کے واقعات میں اضافہ تب ہوا جب مریم نواز کی حکومت نے ڈی آئی جی سہیل ظفر چھٹہ کی زیر قیادت سی سی ڈی تشکیل دیا۔ اعداد و شمار کے مطابق قتل، ڈکیتی اور زیادتی جیسے جرائم پر قابو پانے کے لیے سی سی ڈی کے قیام کے بعد سے صوبے میں پولیس مقابلوں میں 35 فیصد تک اضافہ ہو گیا ہے۔ ان مقابلوں میں ملزمان یا تو مارے جاتے ہیں یا ادھ موئے ہو جاتے ہیں۔ پنجاب میں نیفوں میں پستولیں چلنے کے علاوہ گرفتار شدہ ملزمان فرار ہونے کی کوشش میں بڑی تعداد میں مارے جا رہے ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب پنجاب کے مختلف شہروں میں ڈکیتی اور زنا جیسے جرائم میں ملوث گرفتار ملزمان کو ان کے ساتھی پولیس کی حراست سے چھڑانے کی کوشش میں مروا نہ دیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ آج تک کسی بھی ملزم کے ساتھی اسے پولیس کی حراست سے چھڑانے میں کامیاب نہیں ہوئے، بلکہ اس کی موت کا ہی باعث بنے ہیں۔ یہ بھی سچ یے کہ ان واقعات نے پنجاب کی حد تک جرائم پیشہ افراد پر دہشت اور خوف طاری کر دیا ہے۔
یاد رہے کہ ساڑھے چار ہزار پولیس اہلکاروں پر مشتمل سی سی ڈی کا دائرہ کار تحصیل کی سطح تک پھیلا ہوا ہے، جہاں یہ ڈرون نگرانی، ڈیجیٹل ڈیٹا بیس، اور جدید کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹمز کے ذریعے کام کر رہی ہے۔ یہ فورس اپنے قیام کے بعد سے اب تک 1000 سے زائد "پولیس مقابلے” کر چکی ہے جن میں 200 سے زائد ملزمان ہلاک اور سینکڑوں ہاف فرائی یعنی زخمی ہو چکے ہیں۔ پولیس کی زبان میں فل فرائی کرنا کسی جرائم پیشہ شخص کو مقابلے میں پار کرنے کو کہتے ہیں جب کہ ہاف فرائی کرنا زخمی کرنے کو کہتے ہیں۔ اس وقت پنجاب پولیس کے ہاتھوں ایسے مجرم فل اور ہاف فرائی ہو رہے ہیں جو کمسن بچوں یا خواتین کیساتھ ریپ جیساس سنگین جرم کرتے ہیں۔
جن مجرموں کی شلواروں کے نیفوں میں پستولیں چل رہی ہیں ان کو دراصل ہاف فرائی کیا جا رہا ہے تاکہ ان کا ہتھیار دوبارہ انہیں تنگ نہ کرے اور وہ آئندہ کسی خاتون کو تنگ کرنے کے قابل نہ رہیں۔ قانونی ماہرین کے مطابق کمزور پراسیکیوشن کی وجہ سے اکثر سنگین جرائم میں ملوث ملزمان عدالتوں سے رہا ہو جاتے ہیں، لہذا متاثرین کو سستا اور فوری انصاف فراہم کرنے کے لیے بدکاروں کو پولیس مقابلوں میں فل یا ہاف فرائی کرنا ایک موثر ہتھکنڈا قرار دیا جا رہا ہے۔
