دفاعی بجٹ 400 ارب روپے بڑھانے کا فیصلہ شدید عوامی تنقید کی زد میں

وفاقی حکومت کی جانب سے سال 2024 اور 2025 کے لیے دفاعی بجٹ میں بیس فیصد اضافہ کرتے ہوئے اسے گزشتہ سال کے مقابلے میں 400 ارب روپے بڑھانے کا فیصلہ شدید عوامی کی تنقید کی زد میں ہے اور یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ طاقتور فوجی قیادت وسیع تر عوامی مفاد میں اپنے غیر جنگی اخراجات میں کمی کرے تاکہ قومی خزانے پر پڑنے والا بوجھ کم کیا جا سکے۔
یاد رہے کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان حالیہ جنگ کو پاکستان کے دفاعی بجٹ میں ریکارڈ اضافے کی بڑی وجہ قرار دیا جا رہا ہے، فوجی قیادت کا کہنا ہے کہ پاکستان اپنے دفاع پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کر سکتا۔ یاد رہے کہ آئندہ مالی سال کے دفاعی بجٹ میں ہونے والا اضافہ گذشتہ ایک دہائی کے دوران سب سے بڑا اضافہ ہے۔
وفاقی حکومت نے بجٹ 26-2025 کا اعلان کرتے ہوئے دفاعی بجٹ میں 20.2 فیصد کا بڑا اضافہ کیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آئندہ مالی سال کے لیے دفاع کا بجٹ 428 ارب روپے کے اضافے کے بعد 2550 ارب روپے ہو جائے گا۔ آئی ایم ایف کے قرض چکانے کی خاطر حکومتی ٹیکسوں کا بوجھ اٹھانے والے مہنگائی کے مارے پاکستانی عوام کے لیے تکلیف دہ بات یہ ہے کہ دفاعی اخراجات کے لیے رکھی گئی یہ رقم پاکستان کے جی ڈی پی کا تقریبا 2 فیصد جبکہ مجموعی بجٹ کا تقریبا 15 فیصد بنتی ہے۔
ماضی میں دیکھیں تو پاکستان کے دفاعی بجٹ میں بہت زیادہ اضافہ نہیں ہوتا رہا، لیکن دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاک بھارت کشیدگی کے بعد پاکستانی دفاعی صلاحیت کو مذید مضبوط کرنا لازم ہو چکا ہے۔ حکومت نے رواں مالی سال کے بجٹ میں مسلح افواج کے افسران اور سپاہیوں کیلئے سپیشل الاؤنس کا اعلان بھی کیا ہے، اس سے قبل گزشتہ برس اپنا پہلا بجٹ پیش کرتے ہوئے موجودہ حکومت نے دفاع کے لیے 318 ارب روپے کا اضافہ کرتے ہوئے 2122 ارب روپے مختص کیے تھے۔ اسی طرح مالی سال 24-2023 میں دفاع کے لیے 1804 ارب جبکہ مالی سال 23-2022 میں 1530 ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔
یہ بتانا ضروری ہے کہ پاکستان کے بجٹ کا سب سے بڑا حصہ قرضوں پر سود کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے۔ تقریباً 17 ہزار ارب روپے کے بجٹ میں سے آدھی رقم یعنی 8200 ارب روپے صرف سود کی ادائیگی پر خرچ ہوتی ہے۔ اس کے بعد سب سے بڑا خرچ دفاعی بجٹ ہے۔ تاہم عوامی حلقوں کا مطالبہ ہے کہ فوجی قیادت کو غیر ترقیاتی اخراجات میں فوری طور پر کمی کرنی چاہیے تاکہ عوام پر ٹیکسوں اور مہنگائی کا بوجھ کم ہو سکے۔
دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ فوج کے کچھ غیر جنگی اخراجات کم کرنے کی گنجائش موجود ہے اور اس پر توجہ دی جانی چاہیئے۔
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ نعیم خالد لودھی کے مطابق پاکستانی فوج کے دفاعی اخراجات چار حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں، تنخواہ اور الاؤنسز، آپریشنز، ایڈمنسٹریشن اور تربیت۔ ان کے مطابق تنخواہوں اور الاؤنسز اور تربیت جیسے اخراجات میں تو کمی ممکن نہیں کیونکہ اگر فوج کے افسران اور جوانوں کی تنخواہ پر کٹ لگایا جائے تو کوئی فوج کا حصہ ہی نہیں بننا چاہے گا۔ اسکے علاوہ دفاعی سامان خریدنے پر کافی پیسہ لگایا جاتا ہے جو کہ آپریشنز کا حصہ ہے لیکن آپریشنز کا مطلب صرف اور صرف دفاعی سامان نہیں ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل نعیم خالد لودھی کہتے ہیں کہ دو شعبوں یعنی آپریشنز اور ایڈمنسٹریشن کے اخراجات میں کمی کی گنجائش موجود ہے، البتہ اس میں کتنی کمی کی جا سکتی ہے، اس کے لیے باقاعدہ مطالعہ اور تجزیہ درکار ہے۔
یہ جاننا بھی اہم ہے کہ پاکستان آرمی کا ملک بھر میں ایک وسیع عماراتی ڈھانچا موجود ہے، جو نہ صرف جنگی مقاصد بلکہ افسران کی سہولت کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ تقریباً ہر سیاحتی مقام پر، چاہے وہ دور دراز علاقوں میں ہو یا شہروں میں، فوج کے ریسٹ ہاؤسز موجود ہیں جہاں افسران اور تفریح کی غرض سے آئے، ان کے خاندانوں کو رہائش فراہم کی جاتی ہے اور اس مقصد کے لیے بڑی تعداد میں عملہ بھی تعینات ہوتا ہے۔ نعیم لودھی کا کہنا ہے، "ان عمارتوں پر ہونے والے اخراجات میں یقیناً کمی کی جا سکتی ہے۔‘‘
ان کے مطابق ایک بڑا خرچہ راشن کا بھی ہے جو کہ ضروری تو ہے لیکن جنرل کیانی کے دور میں اس خرچے میں بہت اضافہ کیا گیا تھا جو کہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ نعیم لودھی کہتے ہیں کہ باقاعدہ ایک ریسرچ کر کے یہ والا خرچ بھی کم کیا جا سکتا ہے اور اس کے علاوہ لگژری گاڑیوں کا بھی ایک خرچ ہے اس کو بھی کافی کم ہونا چاہیے۔
معروف دفاعی تجزیہ کار اور مصنفہ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ ”کوئی بھی سرکاری ادارہ کرپشن سے پاک نہیں اور مسلح افواج کے ادارے بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔ لہٰذا کرپشن پر قابو پا کر رقم بچائی جا سکتی ہے، لیکن اس کے لیے کافی محنت اور عزم درکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ بہت سے غیر جنگی اخراجات ایسے ہیں جنہیں کم کیا جا سکتا ہے۔ عائشہ صدیقہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کی تینوں مسلح افواج زمینی فوج، فضائیہ اور بحریہ کے درمیان مؤثر رابطہ کاری سے غیر ضروری دفاعی اخراجات میں کمی لائی جا سکتی ہے۔