علی گڑھ یونیورسٹی سے جناح کی تصاویر کیوں ہٹائی گئیں؟


بھارت میں مودی سرکار کی ہندوآنہ ذہنیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں 1938 سے آویزاں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی تصاویر کو ہٹاکر ایک اندھیری لائبریری کی درازوں میں بند کر دیا گیا ہے، حالانکہ اس یونیورسٹی کے لیے اپنی جائیداد کا ایک بڑا حصہ عطیہ کرنے والے جناح شاید اپنے وقت کے واحد عوامی لیڈر تھے۔

یاد رہے کہ آزادی سے قبل ہندوستان کے امیر لوگوں میں شمار ہونے والے جناح نے اپنی تقریباً پوری جائیداد اے ایم یو اور دو دیگر تعلیمی اداروں پشاور کے اسلامیہ کالج اور کراچی کے سندھ مدرسے کو وقف کر دی تھی۔ سکول کے زمانے میں بہت مختصر وقت کے لیے انھوں نے سندھ کے مدرسۃ العلوم میں تعلیم حاصل کی تھی لیکن باقی دونوں سے ان کا کوئی تعلیمی تعلق نہیں رہا۔ اس سے بھی زیادہ ان اداروں کو اپنی جائیداد وقف کرنے کا فیصلہ 30 مئی، 1939 کو پاکستان کے قیام سے آٹھ سال پہلے کیا گیا تھا۔ بعد کے سالوں میں جب پاکستان کا ان کا مطالبہ شدت اختیار کرنے لگا اور اس حقیقت کو جاننے کے باوجود کہ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو پاکستان میں شامل نہیں کروا سکتے، جناح نے ایک بار بھی اپنی وصیت کو تبدیل کرنے کے بارے میں نہیں سوچا۔ لیکن اب اس علی گڑھ یونیورسٹی میں قائداعظم محمد علی جناح کی تصویر بھی برداشت نہیں کی جا رہی۔

بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق، محمد علی جناح چاہے اکیلے ہوں یا موہن داس کرم چند گاندھی کے ساتھ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی کسی بھی دیوار پر اب انکے لیے اپنی تصویر کی جگہ بنانا ناممکن ثابت ہو رہا ہے۔ یاد ریے کہ جناح 80 سال پہلے 1938 میں علی گڑھ گئے تھے جب یونیورسٹی کے طلبہ نے انھیں اپنی یونین کی تاحیات رکنیت سے نوازا تھا اور روایت کے مطابق یونین ہال کی دیوار پر ان کی تصاویر آویزاں کر دی گئی تھیں۔ پھر بی جے پی کے کچھ رہنماؤں کو معلوم ہوا کہ تقسیم کے بعد بھی جناح وہیں موجود ہیں جہاں پہلے تھے تو انکی تصاویر کو خاموشی سے اتار کر لائبریری میں چھپا دیا گیا۔ لیکن ایسا کرنے کے لئے لیے ایک غیر محسوس طریقہ کار اپنایا گیا۔ پہلے یونیورسٹی والوں نے گاندھی کی سالگرہ کے موقع پر یونیورسٹی کی مشہور مولانا آزاد لائبریری میں کچھ تصویریں نمائش کے لیے لگایئں۔ ان تصویروں میں جناح بھی ان کے ساتھ ہی موجود تھے۔ کسی نے ہو سکتا ہے کہ یہ چیک کرنے کی کوشش کی ہو کہ اکیلے تو جناح زیادہ دیر ٹک نہیں پائے، دیکھتے ہیں کہ بابائے قوم گاندھی کے ساتھ کوئی فرق پڑتا ہے یا نہیں۔

یونیورسٹی حکام کا کہنا تھا کہ اس تصویری نمائش کا مقصد تاریخی دستاویزات، کتابوں اور تصویروں کے ذریعے گاندھی کی زندگی کی ایک جھلک اور ان کے عدم تشدد کے پیغام کو لوگوں تک پہنچانا تھا۔ یہ پیغام کتنے لوگوں تک پہنچا، ایسا کہنا مشکل ہے، لیکن یہ ضرور ہوا کہ نمائش ختم ہوتے ہیں تمام تصاویر بشمول قائد اعظم محمد علی جناح، اتار کر لائبریری میں محفوظ کر دی گئیں۔ یونیورسٹی والوں کا کہنا ہے کہ جناح کی تصویریں ’اتاری‘ نہیں گئی ہیں، بس نمائش مکمل ہوگئی تھی اس لیے ہٹا دی گئی ہیں۔

لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ جناح شاید واحد ایسے پاکستانی رہنما ہیں جو وفات کے 80 سال بعد بھی انڈیا کی سیاست میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ انتخابی مہم میں تو ان کا ذکر ہوتا ہی رہتا ہے۔
کچھ رہنما ان کا نام لے کر اپنی سیاست چمکاتے ہیں اور کچھ کی سیاست ان کا نام لینے کی وجہ سے وقت سے پہلے ہی ختم ہوگئی۔ ان میں بی جے پی کے سابق صدر لال کرشن اڈوانی اور سابق وزیر دفاع جسونت سنگھ بھی شامل ہیں۔
اڈوانی پاکستان گئے، وہاں جناح کو ایک عظیم اور سیکولر رہنما بتایا، جس کے بعد انڈیا کا وزیر اعظم بننے کا ان کا خواب ادھورا ہی رہ گیا۔ جسونت سنگھ نے جناح کے بارے میں کتاب لکھی، کہا کہ تاریخ میں انھیں غلط انداز میں پیش کیا گیا ہے، اور اس کے بعد انھیں پارٹی سے نکال دیا گیا۔ جسونت سنگھ کی کتاب میں ایک چیپٹر گاندھی اور جناح کے بارے میں بھی تھا جس میں وہ لکھتے ہیں کہ دونوں کی سیاست بالکل مختلف تھی۔

’اگرچے گاندھی اور جناح کے خاندان کبھی گجرات کے کاٹھیاواڑ میں صرف چالیس میل کے فاصلے پر رہتے تھے لیکن اس قربت کی جھلک کبھی ان کی سیاست میں نظر نہیں آئی۔ دونوں کی پہلی ملاقات جنوری 1915 میں ہوئی تھی، گاندھی جنوبی افریقہ سے لوٹے تھے اور گوجر برادری کی ایک تقریب میں ان کا استقبال کیا جا رہا تھا۔ اپنے خطاب میں گاندھی نے کہا کہ انھیں اس بات سے خوشی ہوئی کہ تقریب کی صدارت انھیں کے علاقے کا ایک مسلمان کر رہا ہے۔‘

جسونت سنگھ کہتے ہیں کہ گاندھی نے غیر ضروری طور پر جناح کا ایک مسلمان کے طور پر ذکر کیا حالانکہ وہ کسی بھی طرح مسلمانوں کے سٹیریوٹائپ میں فٹ نہیں ہوتے تھے۔ لیکن اپنی تقریر میں جناح نے جم کر گاندھی کی تعریف کی۔ اپنے صدراتی خطاب میں جناح نے کہا کہ ’سب سے بڑا مسئلہ ہندوؤں اور مسلمانوں میں اتفاق اور تعاون کا جذبہ پیدا کرنا ہے تاکہ تاج برطانیہ سے انڈیا کی آزادی کا مطالبہ متفقہ طور پر کیا جاسکے۔‘

اتحاد کی ان کوششوں کا کیا ہوا، یہ کہانی تو لمبی ہے لیکن اس کتاب پر بھارتی حکومت نے پابندی عائد کر دی۔ جسونت سنگھ نے جواب میں کہا تھا کہ جب ’ہم کتابوں پر پابندی لگانے لگیں تو سمجھیے کہ ہم سوچنے پر پابندی لگا رہے ہیں۔‘ جسونت کی کتاب پر سے تو پابندی ہٹ گئی، لیکن ان جیسی سوچ کے بارے میں معلوم نہیں۔ اس لیے علی گڑھ یونیورسٹی والوں سے یہ سوال بھی پوچھا جا سکتا ہے کہ اس نے جناح کی تصویر کے ساتھ گاندھی کی تصویر کیوں اتاری!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button