کیا فیض حمید کا کورٹ مارشل فوج میں دراڑیں ظاہر کرتا ہے؟

پاکستانی فوج کے ترجمان نے اس تاثر کی نفی کی ہے کہ اپنے عہدے کا غلط استعمال کرنے والے سابق آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کی گرفتاری اور کورٹ مارشل جیسے فیصلے دراصل فوجی صفوں میں پڑ جانے والی دراڑوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ ایک انٹرویو میں تاہم ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے اس تاثر کو ایک ایجنڈے کے تحت فوج مخالف عناصر کی جانب سے پھیلائی گئی افواہ قرار دیا۔

بی بی سی اردو سے خصوصی انٹرویو کے دوران فوجی ترجمان نے کہا کہ فوج میں احتساب کا ایک نظام وضع ہے اور جو بھی فوجی افسر اپنے عہدے کا غلط استعمال کرے گا اسے ادارے کو جواب دینا ہو گا۔ فیض حمید ہو یا کوئی اور، غلط کاری کرنے والا اپنے ادارے کو جواب دہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے فوج کے خلاف بہت سی افواہیں اور مفروضے پھیلائے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک افواہ یہ بھی تھی کہ فوج اپنا کام نہیں کرتی اور سیاست میں ملوث ہے۔ لیکن جب بھارتی حملے کے بعد جوابی طور پر معرکہِ حق شروع ہوا تو سوال یہ ہے کہ کیا فوج نے اپنا کام کیا یا نہیں؟ کیا جنگ کے دوران قوم کو پاک فوج میں کوئی کمی محسوس ہوئی؟ نہیں، بالکل نہیں۔ ہماری فوج نے دشمن کو ناکوں چنے چبوا دیے۔ ہم اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں پر مکمل توجہ دیتے ہیں اور ہماری وابستگی پاکستان کے عوام کی علاقائی سالمیت اور خودمختاری اور پاکستانیوں کے تحفظ سے ہے۔ یہی وہ کام ہے جو فوج کرتی ہے۔‘

لیفٹینینٹ جنرل احمد شریف کا کہنا تھا کہ ’اسلیے بغیر کسی ثبوت کے سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے ہوائی مفروضوں پر توجہ دینے سے اجتناب کیا جانا چاہیے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ایک ایسی فوج، جس کے بارے میں کہا جائے کہ وہ منقسم ہے اور اپنے عوام سے کٹی ہوئی ہے، جنگ کے دوران بھارت کے خلاف ایسی شاندار کارکردگی دکھا سکتی تھی؟ ہرگز نہیں۔ ہم صرف اندرونی طور پر ہی چٹان کی طرح متحد نہیں، بلکہ بحیثیت قوم بھی متحد ہیں۔ اس سوال پر کہ فوج پر یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ وہ سویلین معاملات میں مداخلت کرتی ہے اور اپنے مینڈیٹ سے ہٹ رہی ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ حکومت چاہے وفاقی ہو یا صوبائی، فوج اس کے احکامات اور ہدایات پر عمل کرتی ہے۔ آرمی حتی الامکان حکومت اور عوام کی مدد کرتی ہے، چاہے پولیو ویکسینیشن کی مہم ہو یا کرونا وبا سے نمٹنا ہو۔ فوجی قیادت اس بات کو بالائے طاق رکھ کر کہ کس جماعت کی حکومت ہے، عوام کا تحفظ کرتی ہے۔

پاکستانی فوجی اسٹیبلشمنٹ، خاص طور پر آئی ایس آئی جیسی کو مسلسل ان الزامات کا سامنا رہا کہ وہ شہریوں، سیاستدانوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی خفیہ سائبر نگرانی کرتے ہیں، اور یہ کہ سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بی بی سی نے ان الزامات بارے بھی ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف سے سوال کیا اور پوچھا کہ اگر یہ الزام سچ ہے تو پاکستانی فوجی اسٹیبلشمنٹ کو اپنے ہی شہریوں کی سائبر نگرانی کی ضرورت کیوں ہے؟

جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا ’پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 19 اظہارِ رائے کی آزادی سے متعلق بنیادی دستاویز ہے جس میں لکھا ہے کہ اظہارِ رائے کی آزادی تو ہو گی لیکن اس کے کچھ اصول اور پابندیاں ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ پابندیاں بالکل واضح ہیں، اس میں کہا گیا ہے کہ کوئی ایسی بات نہیں کی جا سکتی جو پاکستان کی سالمیت کے خلاف ہو، یا پاکستان کے شہریوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرے، ہمارے عدالتی نظام کی توہین کرے، عوام کی اخلاقیات کو تباہ کرے۔‘

عدالتی فیصلہ: صوبائی اسمبلیوں میں بھی حکومتی اتحاد کو فائدہ

فوجی ترجمان نے کہا کہ ’اظہارِ رائے کی آزادی کے کچھ اصول اور قوانین ہیں اور یہ اس لیے اہم ہیں کہ معاشرہ ان کے بغیر چل نہیں سکتا۔‘ ڈی جی آئی ایس پی آر نے پاکستان میں آزادی اظہار رائے کا تقابل انڈیا اور پاکستان کے درمیان حالیہ کشیدگی کے دوران انڈیا میں قدغنوں سے کرتے ہوئے کہا کہ ’اس بات پر بھی غور کریں کہ پاکستان میں کتنی اظہارِ رائے کی آزادی ہے اور اس کا گذشتہ دنوں انڈیا کی نام نہاد سب سے بڑی جمہوریت سے موازنہ کریں۔ آپ نے دیکھا کہ انھوں نے نہ صرف بین الاقوامی یا پاکستان کے اکاؤنٹس بند کیے بلکہ اپنے ہی انڈین سمجھدار لوگوں کے اکاؤنٹس بھی بند کر دیے۔ وہ اب بھی ایسا کر رہے ہیں، ہزاروں کی تعداد میں۔‘

Back to top button