وفاقی بجٹ کے بعد عوام کیلئے ریلیف کی بجائے تکلیف میں اضافہ

وفاقی بجٹ نے عوام کو ریلیف دینے کے بجائے ان کی مشکلات اور تکالیف میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔

تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسز کے تسلسل، ای کامرس، پینشن، گریجویٹی اور سولر پینلز سمیت مختلف سیکٹرز پر نئے ٹیکسز کے نفاذ نے عوام کی چیخیں نکال دی ہیں۔ جہاں عوام مہنگائی، بے روزگاری اور بڑھتے اخراجات سے پہلے ہی پریشان تھے، وہیں یہ بجٹ عام آدمی کے لیے مزید بوجھ بن گیا ہے۔

مبصرین کے مطابق پارلیمان میں بجٹ پیش ہونے سے لے کر منظوری تک  ہونے والی بحث اور دعوؤں میں توقع کی جا رہی تھی کہ ترامیم کے ذریعے فنانس بل کی منظوری کے وقت کچھ بڑی تبدیلیاں کی جائیں گے اور عوامی مطالبے پر تنخواہ دار طبقے پر عائد ٹیکسز میں ریلیف، سولر پینل پر ٹیکس کے خاتمے، پراپرٹی کی خرید و فروخت پر عائد ٹیکس میں کمی، پیٹرولیم مصنوعات پر کاربن لیوی وغیرہ جیسے ٹیکسز ختم کر دئیے جائیں گے تاہم  قومی اسمبلی سے منظور ہونے والے فنانس بل میں کچھ معمولی تبدیلیوں کے علاوہ عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا گیا بلکہ عوام پر ٹیکسز کا نیا بوجھ لاد دیا گیا جس کے اثرات آنے والے دنوں میں مزید سامنے آئیں گے

معاشی تجزیہ کاروں کے مطابق بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دینے کے بلند و بانگ دعوے کئے گئے ہیں تاہم قومی اسمبلی کے میڈیا ڈیپارٹمنٹ سے ریلیز ہونے والے فنانس ترمیمی بل میں تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کا کوئی ذکر نہیں۔ اس حوالے سے ٹیکس امور کے ماہر کا کہنا ہے کہ منظور شدہ ترمیمی فنانس بل میں تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کا کوئی ذکر نہیں، اس کا مطلب ہے کہ جو پیش کردہ فنانس بل میں ٹیکس کی شرح تجویز کی گئی تھی وہی لاگو ہوگی۔ انھوں نے مزید کہا کہ ترمیمی فنانس بل میں جب کسی چیز کا ذکر نہیں ہوتا تو اس کا مطلب ہے کہ پیش کردہ فنانس بل میں تجویز کردہ ہی منظور سمجھا جائے گا۔تاہم انھوں نے نشاندہی کی کہ گریجویٹی اور پینشن پر ٹیکس میں تبدیلی کی گئی ہے۔ انھوں نے کہا فنانس بل کے پش کرتے وقت ایک کروڑ پینشن اور گریجویٹی پر پانچ فیصد ٹیکس تجویز کیا گیا تھا تاہم منظور شدہ بجٹ میں ایک کروڑ روپے تک کوئی ٹیکس نہیں ہوگا تاہم ایک کروڑ سے تجاوز کرنے پر پانج فیصد ٹیکس عائد ہو گا۔

معاشی ماہرین کے مطابق نئے مالی سال کے پیش کردہ بجٹ میں سولر پینل کی درآمد پر 18 فیصد ٹیکس عائد کیا گیا تھا۔حکومت کی جانب سے اس ٹیکس کی تجویز کے بعد اس پر اعتراضات سامنے آئے جس کے بعد پارلیمان کی فنانس کمیٹیوں میں اس پر بحث کے بعد اس میں کمی کی ترامیم پیش کی گئی تھیں جس کے بعد پارلیمان کے ایوان زیریں میں پاس ہونے والے ترمیمی فنانس بل میں سولر پینل کی درآمد پر دس فیصد عائد ٹیکس کی شرح کی منظوری دی گئی ہے۔

نئے مالی سال کے فنانس بل جائیداد کی خریداری پر جہاں ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح چار فیصد سے کم کر کے ڈھائی فیصد، ساڑھے تین فیصد سے کم کر کے دو فیصد اور تین فیصد سے کم کر کے ڈیڑھ فیصد کرنے کی منظوری دی گئی ہے وہیں ’تعمیرات کے شعبے کے بوجھ کو مزید کم کرنے کے لیے کمرشل جائیدادوں، پلاٹس اور گھروں کی منتقلی پر گذشتہ سال عائد کی جانے والی سات فیصد تک کی فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی بھجی ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

مخصوص نشستوں کا فیصلہ عوامی مینڈیٹ کی توہین ہے : پی ٹی آئی

بجٹ میں تعمیراتی شعبے کے لیے مراعات کا اعلان کرنے کے ساتھ کم لاگت کے گھروں کی تعمیر کے لیے قرض فراہم کرنے اور گھروں پر قرض حاصل کرنے کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے دس مرلے تک کے گھروں اور دو ہزار سکوائر فٹ تک کے فلیٹس پر ٹیکس کریڈٹ متعارف کروایا جا رہا ہے۔ تاہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں ان بجٹ اقدامات سے متوسط طبقے کے لیے اپنے گھر کی تعمیر اور خریداری میں کتنی سہولت ہو گی؟ اس بارے میں تعمیراتی شعبے کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ’گھر کی خریداری کے لیے سب سے پہلے اتنی آمدنی کا ہونا ضروری ہے کہ ایک متوسط طبقے کا فرد ضروریات پوری کرنے کے بعد اتنا بچا سکتا ہو ٹیکس میں کمی اور ایکسائز کے خاتمے سے چند لاکھ روپے کہ کمی ہو گی جو ایک کروڑ کے ایک چھوٹے سے گھر پر بچ سکتے ہیں تاہم متوسط طبقے کے پاس کیا یہ ایک کروڑ ہے کہ وہ کسی گھر کی خریداری کے لیے یہ چند لاکھ بچا پائے؟‘

معاشی تجزیہ کاروں کے مطابق منظور کردہ بجٹ میں دیگر فیصلوں کے علاوہ ٹیکس فراڈ میں ملوث افراد کو 10 سال قید اور ایک کروڑ جرمانے کی سزا تجویز کی گئی تھی، اس تجاویز کو بھی مسترد کیا گیا ہے بجٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ 5 کروڑ سے زائد کے فراڈ کی صورت میں کمپنی کے سربراہ کی گرفتاری ہو سکے گی لیکن اس کے لیے بھی پہلے 3 مرتبہ نوٹسز جاری کرنے ہوں گے اور متعلقہ اتھارٹی کے سامنے پیش نہ ہونے کی صورت میں گرفتاری کی جائے گی۔

Back to top button