کار سواری سے گدھا گاڑی تک!
تحریر: عطا ء الحق قاسمی ۔۔۔۔۔۔۔ بشکریہ: روزنامہ جنگ
کچھ عرصہ پہلے تک میری روٹین تھی کہ دفتر جاتے ہوئےکار کی پچھلی سیٹ پر بیٹھا کوئی کتاب پڑھنے میں مشغول رہتا مگر اب میری روٹین بدل گئی ہے اور اب میں سڑک پر ’’بکھرے‘‘ لوگوں اور جانوروں کو پڑھتا ہوںایک دن مجھے دور سے ایک جانور نظر آیا جس کی شکل گدھے سے ملتی جلتی تھی قریب جا کر دیکھا تو وہ گدھا ہی تھا۔ گدھا ہر دو صورتوں میں بہرحال گدھا ہی نکلتا ہے۔ وہ شاید گدھے کا مالک تھا یا کوئی راہگیر جو اس گدھے کی وجہ سے جو عین سڑک میں دھرنا دیئے ہوئے تھاجام ہوئی ٹریفک کھولنا چاہتا تھاوہ اسے اٹھانے کی کوشش کر رہا تھا۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ گدھے کا مالک تھا کیونکہ کچھ ہی دورگدھا گاڑی کھڑی تھی جس پر منوں کے حساب سے لدا سامان سڑک پر بکھرا پڑا تھا۔دوسری طرف کاروں، بسوں اور موٹر سائیکل والوں کے ہارن سے کانوں کے پردے پھٹے جا رہے تھے۔ تاہم یہ سوچ کر لطف بھی آ رہا تھا کہ گدھے پر اس کی ہمت اور کپیسٹی سے زیادہ بوجھ ڈال دیا جائے تو وہ پبلک کے لئے تو عذاب بنتا ہی ہے۔مالک کو بھی کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑتا کیونکہ اب لوگ گدھے سے زیادہ اس کے مالک کو غصیلی نظروں سے دیکھ رہے تھے معاملہ بہت سنگین ہو گیا تو میں اپنی کار سے نکلا کیونکہ ایک بزرگ نے جو جانوروں کی زبان سمجھتے تھے اور ان سے سوال جواب بھی کرتے تھے میری عقیدت اور ان کی والہانہ خدمت کے صلے میں انہوں نےمجھے بھی اس علم کا ایک حصہ عطا کردیا تھا۔ میں گدھے کے قریب گیا گدھے نے پہلے تو غصیلی نظروں سے مجھے دیکھا مگر پھر اچانک اس کی آنکھوں میں خوشی کی ایک چمک سی آئی۔ میری روحانی تربیت میرے کام آگئی تھی میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہی اسے پتہ چل گیا تھا کہ اس کا دکھ درد سمجھنے والا شخص آن پہنچا ہے میں نے اس کے کان میں کہا ’’برادر، خلق خدا تنگ ہورہی ہے، تم اب اٹھ جائو اور سڑک کے کنارے آ کر میری بات سنو‘‘ وہ برق رفتاری سے اپنی جگہ سے اٹھا، اس کی خوشی کا اندازہ مجھ کو ہی ہو رہا تھا اور وہ بہت تیزی سے چلتا ہوا سڑک کنارے آگیا۔
لاشیں اور بیانیہ
اب ٹریفک رواں دواں ہو گئی تھی ہارنوں کا شور بھی ختم ہوگیا تھا میں نے سامنے کی دکان سے ایک کرسی مستعار لے کر گدھے کے برابر رکھی اور اس پر بیٹھ گیا گدھے کا مالک اس تبدیلی پر بے حد خوش تھا میں نے اسے کہا سامنے کی دکان سے ملائی والی لسی کے دو جمبو گلاس لائوایک اس گدھے کو پیش کرو اور دوسرا مجھے دو تاکہ خوشگوار ماحول میں مذاکرات ہو سکیں۔ گدھے کے مالک نے ایک منٹ میں تعمیل کی گدھے نے ملائی والی لسی کا ایک لمبا گھونٹ لیا اور مجھے مخاطب کرکے کہا ’’یہ سارا دن مجھے سخت گرمی میں بھوکا پیاسا سڑکوں پر لئے پھرتا تھا، آج یہ مجھے ٹھنڈی ٹھار لسی پلانے پر مجبور ہوگیا ہے‘‘۔ اس کے بعد اس نے مجھے مخاطب کیا اور انگریزی میں کہا ’’تھینک یو سر!‘‘ جس پر میری ہنسی نکل گئی۔گدھے کو خوشگوار موڈ میں دیکھ کر میں نے اس سے مذاکرات کا آغاز کیا اور پوچھا ’’یار تم نے گدھے جیسی شریف النسل مخلوق ہوتے ہوئے آج خلق خدا کو اتنا پریشان کیوں کیا اور اپنے مالک کو بھی پبلک کے سامنے خواہ مخواہ شرمندہ کیا‘‘۔ بولا ’’سر بات یہ ہے کہ جب میں اس کے پاس آیا، اس وقت یہ دھوبی کا کام کرتا تھا اور مجھ پر دھونے والے کپڑے لاد کر دھوبی گھاٹ اور پھر واپس گھر تک آتا تھا۔ میں بس اتنا ہی بوجھ اٹھا سکتا تھاچنانچہ خوشی سے اپنے فرائض انجام دیتا رہا‘‘۔پھر ہوا یوں کہ اس نے دھوبی گھاٹ کا کام چھوڑ کر مختلف منڈیوں سے ٹنوں وز ن کا حامل سامان مجھ پر لادنا شروع کردیامیں کئی بار بھرے بازار میں بے پناہ وزن کی وجہ سے ہوا میں لٹک جاتا تھا جس سے ریڑھی میں لدا سامان سڑک پر بکھر جاتا تھا اور یوں اسے شدید پرابلم کا سامنا کرنا پڑتامگر اس کو سمجھ پھربھی نہ آئی۔ آج آپ جیسا انسان دوست شخص یہاں موجود تھا اور اس نے اس صورتحال کا نوٹس لیا‘‘۔ میں نے اسے ٹوکا اور کہا ’’عزت افزائی کا بہت شکریہ مگر میرے ڈونکی فرینڈ میں نے انسان دوستی کا نہیں، گدھا دوستی کا ثبوت دیا۔ پلیز مائنڈ یور لینگویج‘‘!
میرے خیال میںاس گدھے کو میری بات سمجھ نہ آئی، تاہم میں نے اسے معاملے کی نزاکت سمجھانے کی بجائے اس کے مالک کو مخاطب کیا اور کہا ’’تم اس کی طاقت سے زیادہ وزن اس پر ڈالتے ہو‘‘بولا’’ جی میری یہ مجبوری ہے ورنہ مجھے ایک جگہ سے دوسری جگہ سامان پہنچانے کے لئے ایک سے زیادہ پھیرے لگانا پڑتے ہیں‘‘ میں نے کہا ’’تم بھی ٹھیک کہتے ہو تم اپنا یہ پیارا گدھا مجھے فروخت کردو اور اس کی جگہ کوئی تگڑا گدھا خرید لو۔ گدھے کا مالک یہ سن کر خوش ہوا، میں نے اسے گدھے کے علاوہ گدھا گاڑی کی بھی منہ مانگی رقم دی اور گدھے کو ریڑھی کے آگے جوت کر ریڑھی پر سوار ہوگیا۔میں نے ڈرائیور سے کہا ’’تم گاڑی گھر لے جائو، وہاں بچوں نے شاید شاپنگ وغیرہ کےلئے جانا ہے۔ میں گدھا گاڑی پر دفتر جائوں گا‘‘اس کے بعد میں نے باگیں کھینچتے ہوئے منہ سے کچ کچ کی آواز نکالی اور دفتر کی طرف روانہ ہوگیا۔
سچی بہت مزا آیا ۔آپ بھی کبھی ٹرائی کریں!
اور اب آخر میں آغرندیم سحر کی ایک غزل:
ہم درختوں کو اگر خواب سنانے لگ جائیں
ان پرندوں کے تو پھر ہوش ٹھکانے لگ جائیں
آخری پل ہے ذرا بیٹھ کہ باتیں کر لیں
عین ممکن ہے پلٹنے میں زمانے لگ جائیں
یہ بھی ممکن ہے کہ چپ چاپ سرِ بزم رہیں
یہ بھی ممکن ہے کوئی گیت سنانے لگ جائیں
ہم نوافل میں ترے نام کی تسبیح کریں
یوں بھی مسجد میں ترا ہجر منانے لگ جائیں
کوزہ گر تم سے مرے خواب نہیں ٹھیک بنے
بس یہی سوچ کے پھر چاک گھمانے لگ جائیں
حضرتِ قیس ترے خواب کی بیعت کر کے
ہم کسی دشت میں پھر نام کمانے لگ جائیں
یہ بھی ممکن ہے کہ چپ چاپ ترا ہجر سہیں
یہ بھی ممکن ہے کوئی حشر اٹھانے لگ جائیں
ہم ہیں تنہائی کے مارے ہوئے کمرے کےمکیں
جو بھی مل جائے اسے دوست بنانے لگ جائیں
ہم نئے دور کے عاشق بھی عجب ہیں کہ ندیم
جو بھی مل جائے اسے شعر سنانے لگ جائیں