کیا شہباز اور نثار ملاقات کا مقصد عمران خان کیساتھ پیغام رسانی ہے ؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار نصرت جاوید نے کہا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی چوہدری نثار علی خان سے ملاقات کا مقصد حکومت کی جانب سے عمران خان کے ساتھ پیغام رسانی بھی ہو سکتا ہے چونکہ دونوں ایچی سن کالج لاہور میں کلاس فیلو رہے ہیں۔

 نصرت جاوید اپنے سیاسی تجزیے میں کہتے ہیں کہ شہباز شریف اچانک ایک طویل عرصے بعد سابق وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان سے ملنے راولپنڈی میں انکے گھر پہنچ گئے۔ سرکاری طور پر ملاقات کا  مقصد چودھری نثار علی خان کی مزاج پرسی بتایا گیا جو کئی روز سے بیمار ہیں۔ ان کی بیماری کی خبر وزیر اعظم تک پہنچی تو ان کا نرم وحساس دل اپنے دیرینہ دوست کی مزاج پرسی کو مجبور ہوا حالانکہ ان دونوں کے مابین گزشتہ کئی برسوں سے دوری آ چکی ہے۔  اسکی وجہ نواز شریف کے تیسرے دور حکومت کا آخری زمانہ ہے جب ریاست کے دائمی اداروں نے پانامہ پیپرز کے بہانے ثاقب نثار کی سپریم کورٹ کے ذریعے منتخب وزیر اعظم نواز شریف کو بدعنوانی کے الزامات  لگا کر گھیر رکھا تھا۔

نصرت جاوید کہتے ہیں کہ فیصلہ سازوں نے پانامہ کی بجائے اقامہ کیس میں نواز شریف کو اقتدار سے بے دخل کر دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ذاتی طور پر میں مسلم لیگ (نون) کا کبھی حامی نہیں رہا کیونکہ میں اسے جنرل ضیاء کی باقیات میں شمار کرتا رہا۔ لیکن تین مرتبہ منتخب ہونے والے وزیر اعظم کو جس طرح گھیر کر نا اہل کروایا گیا وہ ایک انتہائی نامناسب اور گھٹیا عمل تھا۔ جب یہ واردات ڈالی گئی تب چودھری نثار علی خان وزیر داخلہ تھے لیکن انہوں نے اپنا وزن اسٹیبلشمنٹ کے پلڑے میں ڈال دیا۔ ’’ڈان لیکس‘‘ کے ذمہ داروں کا تعین کر کے انہیں سبق سکھانے کے فیصلے میں چوہدری نثار علی خان کی مرضی بھی شامل تھی۔

نواز شریف کی فراغت پر چوہدری نثار علی خان نے یہ موقف اختیار کیا کہ اگر وہ انکے مشورے پر چلتے اور فوجی قیادت سے پنگے بازی نہ کرتے تو انھیں اقتدار سے بے دخل نہ کیا جاتا۔ اس سے پہلے 1990 میں صدر غلام اسحاق خان نے وزیر اعظم نواز شریف کی پہلی حکومت کو برطرف کر دیا تھا۔ اسکے بعد 1999 میں نواز شریف کو ایک مرتبہ پھر اقتدار سے بے دخل کرنے کے لیے جنرل مشرف میدان میں آئے اور مارشل لا نافذ کر دیا۔

کیا موجودہ ہائبرڈ سسٹم آف گورننس پاکستان کو راس آ چکا ہے؟

نصرت جاوید کے مطابق چودھری نثار اور شہباز شریف کے حامی مصر ہیں کہ اگر ان دونوں کی بنائی حکمت عملی پر کامل عمل ہوتا تو نوازشریف شاید آج بھی وزیر اعظم ہوتے۔ لیکن نصرت کا کہنا ہے کہ وہ اس سوچ سے متفق نہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ شہباز صاحب کی چودھری نثار سے حالیہ ملاقات فقط غیر ذاتی وجوہات کی بنیاد پر ایک دوجے سے جدا ہوئے دوست کے ’’مزاج پرسی‘‘ تک محدود تھی یا شہباز کو ایک بار اپنی حکومت کے استحکام کے لئے کوئی تازہ ’’حکمت عملی‘‘ درکار ہے جس میں چودھری نثار حصہ ڈالیں گے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم چودھری نثار  سے محض دیرینہ تعلقات ذہن میں رکھتے ہوئے انکا حال پوچھنے گئے تھے۔ لیکن میں یہ سوچنے سے باز نہیں آرہا کہ شہباز کی نثار سے طویل عرصے کے بعد ہونے والی ملاقات کے دوران کسی نہ کسی نوعیت کی حکمت عملی بھی زیر بحث آئی ہے۔ حکمت عملی کا ذکر کرتے ہوئے احتیاطاََ یاد دلانا لازمی سمجھتا ہوں کہ اڈیالہ کے قیدی نمبر804 لاہور کے ایچی سن کالج میں چودھری نثار کے قریب ترین دوست تھے۔ اس دوستی کے باوجود نثار علی خان تحریک انصاف کے عروج کے دنوں میں عمران خان کی خواہش کے باوجود انکی جماعت میں شامل نہیں ہوئے تھے اور مسلم لیگ سے کنارہ کشی کے بعد تقریباََ گوشہ نشینی اختیار کرلی۔ شاید چوہدری نثار علی خان جیل میں قید عمران خان کو ملکی سیاست کے ٹھوس مگر تلخ حقائق سمجھانے کا فریضہ سر انجام دینے جا رہے ہیں۔

Back to top button