فیض حمید نے الیکشن 2018 میں عمران خان کو وزیراعظم کیسے بنوایا ؟

2018 کے الیکشن میں عمران خان کو وزیراعظم بنانے کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تب کی ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید اور عمران خان کے مابین اسلام آباد میں تقریبا 50 ملاقاتیں ہوئیں۔ ان ملاقاتوں کے لیے ایک سیف ہاؤس کا اہتمام کیا گیا تھا تاکہ کسی کو منصوبے کا علم نہ ہو پائے۔ ان ملاقاتوں میں اکثر آرمی چیف جنرل قمر باجوا بھی موجود ہوا کرتے تھے جس کے نتیجے میں بالآخر نواز شریف وزارت عظمی سے ہٹا کر جیل میں ڈال دیے گئے اور عمران خان الیکشن 2018 کے بعد مسند اقتدار پر فائز کر دیے گئے۔
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار روؤف کلاسرا اپنی تازہ تحریر میں یہ انکشاف کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اگر یہ کہانی انہوں نے عمران خان کے ساتھی اور سابق وفاقی وزیر اسحاق خاکوانی سے خود نہ سنی ہوتی تو وہ کبھی اس پر یقین نہ کرتے۔ انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ 2018ء کے الیکشن سے پہلے عمران خان کی اُس وقت کے ڈی جی سی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید سے کم از کم چالیس خفیہ ملاقاتیں ہو چکی تھیں۔ خاکوانی کا کہنا تھا کہ ویسے تو عمران نے فیض سے کم از کم پچاس خفیہ ملاقاتیں کی ہوں گی لیکن میں جان بوجھ کر چالیس ملاقاتیں کہہ رہا ہوں تاکہ یہ نہ لگے کہ میں معاملہ بڑھا چڑھا کر بیان کر رہا ہوں۔
کلاسرا کہتے ہیں کہ جب میں نے اسحاق خاکوانی سے پوچھا کہ یہ ملاقاتیں کیسے ہو رہی تھیں تو انہوں نے حیران کن جواب دیا کہ اس کیلئے ایک خفیہ نظام بنایا گیا تھا تا کہ ان ملاقاتوں کا کسی کو علم نہ ہو۔ نواز شریف حکومت کو تو بالکل پتہ نہ چلے کہ کیا کھچڑی پک رہی ہے۔ اس کام کیلئے جہانگیر ترین نے اسلام آباد میں ایک گھر کرائے پر لیا ہوا تھا۔ اسی گھر کی بالائی منزل پر یہ ملاقاتیں ہوتی تھیں۔ دونوں وہاں بیٹھ کر اکثر اکٹھے لنچ کرتے تھے۔ لنچ کا موڈ نہ ہوتا تو ملازمین چائے پانی اوپر پہنچا دیتے تھے۔ اس کو خفیہ گھر کہیں یا پھر سیف ہاؤس‘ بہرحال وہاں فیض حمید اور عمران خان ایک عرصہ تک ملتے رہے اور اہم امور پر مشاورت اور فیصلے کیے۔
رووف کلاسرا بتاتے ہیں کہ ان ملاقاتوں کے نتیجے میں نواز شریف وزیر اعظم ہاؤس سے جیل بھیج دیے گئے اور عمران کا ستارہ عروج پر گیا اور وہ وزیراعظم بن گئے۔ وزیر اعظم بننے کے کچھ عرصہ بعد ہم نے دیکھا کہ عمران خان نے فیض حمید کو ڈی جی آئی ایس آئی لگا دیا۔ یہ عہدہ خالی کرانے کیلئے موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو ہٹایا گیا۔ عاصم منیر کو ہٹانے کے پیچھے بھی ایک کہانی ہے۔ شنید ہے کہ عاصم منیر کو سب نے منع کیا تھا کہ آپ وزیراعظم عمران خان کو ان کی بیگم کے ایک پراپرٹی ٹائیکون سے لین دین‘ ہیرے جواہرات کی انگوٹھیوں اور دیگر ماڑ دھاڑ کی رپورٹ نہ دیں لیکن جنرل عاصم کا کہنا تھا کہ اگر وہ یہ رپورٹ وزیر اعظم کو نہیں دیں گے تو یہ ان کے حلف کی خلاف ورزی ہو گی اور کل کلاں وزیراعظم کو ان کی بیگم کی حرکات کی وجہ سے مسائل اور سکینڈلز کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان کا موقف تھا کہ ڈی جی آئی ایس آئی ہونے کے ناتے ان کا یہ فرض ہے کہ وہ یہ سب وزیر اعظم کے علم میں لائیں۔
سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ اس وقت شاید عاصم منیر کے ذہن میں یہ بات ہو کہ وزیراعظم خوش ہوں گے کہ میں نے انہیں بر وقت خبردار کر دیا، لیکن وہی ہوا جس خدشے کا اظہار کیا گیا تھا۔ عمران خان اپنی بیگم کے خلاف ثبوت دیکھ کر چھت کو جا لگے۔ شاید لوگوں نے عمران کی بشریٰ کیلئے عقیدت کو ٹھیک طرح نہیں سمجھا تھا۔ وہ خان کی مرشد تھیں اور وہ اس کا برملا اظہار بھی کرتے تھے بلکہ اپنے اس مرشد کی ہدایت پر وہ پاکپتن میں بابا فرید گنج شکرؒ کے مزار کی چوکھٹ پر سجدہ بھی کر آئے تھے۔ آپ نوٹ کریں کہ وہ ہمیشہ بشریٰ صاحبہ کا نام عقیدت سے لیتے ہیں۔ جہاں تعلق عقیدت اور پیری مریدی کا ہو وہاں ائی ایس ائی چیف کی انٹیلیجنس رپورٹس کیا بگاڑ سکتی تھیں۔
کلاسرا کہتے ہیں کہ جہانگیر ترین کا پتہ بھی اس طرح کٹا تھا۔ انہوں نے بشریٰ بیگم کے حوالے سے کچھ شکوک کا اظہار کیا تھا۔ بشریٰ نے تو منہ پر جہانگیر ترین کو یہ کہہ بھی دیا تھا اور وہاں موجود لوگوں نے فوراً اندازہ بھی لگا لیا تھا کہ اب ترین کی چھٹی پکی ہے۔ اس طرح جنرل عاصم منیر کو بھی عہدے سے ہٹایا گیا کیونکہ انہوں نے عمران کا انکی ہیرنی بارے منفی رپورٹس دی تھیں۔
اقتدار یا طاقت کا حصول دراصل اتنا خوفناک جذبہ ہے کہ بندہ اس کیلئے اپنی جان بھی داؤ پر لگا دیتا ہے۔ اس کہانی کے مختلف کرداروں کو دیکھیں تو آپ کو نظر آئے گا کہ ہر کوئی طاقت کے کھیل میں اس لیے حصہ لے رہا ہے کہ اس کے اندر خواہشات تھیں۔ اسکے اندر انسانوں کا بھگوان بننے کا شوق تھا‘ جس کیلئے وہ سب کچھ داؤ پر لگانا چاہتا تھا۔ سوال یہ ہے کہ عمران خان کو جہانگیر ترین کے توسط سے کرائے کا گھر لے کر وہاں فیض حمید سے ملاقاتوں کی کیا ضرورت تھی؟ یا فیض حمیداتنے اہم عہدے پر ہوتے ہوئے کیوں ایک ایسے گھر میں عمران خان سے خفیہ ملاقاتیں کررہے تھے۔ یا پھر جہانگیر ترین کیونکر اپنی جیب سے پیسے لگا کر ایک گھر لے کر عمران اور فیض حمید کی خفیہ ملاقاتیں کرا رہے تھے؟ اگر آپ ان تینوں کرداروں کو ملا کر دیکھیں تو بات وہیں پہنچ جاتی ہے کہ اس کھیل میں ہر کسی کے اپنے اپنے مفادات تھے اور سب ذاتی تھے۔ کسی کو قوم کا درد نہیں تھا۔
سینئیر صحافی کے مطابق فیض حمید یقینا اُس وقت کے آرمی چیف قمر باجوہ کی ہدایت پر یہ سارا کام کررہے تھے۔ جنرل (ر) قمر باجوہ کو مدتِ ملازمت میں توسیع درکار تھی تو فیض حمید نے قمر باجوہ کے بعد عمران کی وزارتِ عظمیٰ میں 2022ء میں آرمی چیف بننا تھا۔ جبکہ جہانگیر ترین نے کنگ میکر بننا تھا، جو رول انہوں نے بعد میں ادا بھی کیا، جب عمران خان کو وزیراعظم بنوانے کیلئے ارکان کم پڑ گئے تو وہ اپنے جہاز پر آزاد ارکان بٹھا کر لائے اور بنی گالا میں ان کے گلے میں خان صاحب نے پی ٹی آئی کا جھنڈا ڈالا۔
لیکن کلاسرا کہتے ہیں کہ یہ سب کردار بھی بعد میں ایک دوسرے سے لڑ پڑے۔ عمران خان نے سب سے پہلے جہانگیر ترین کا پتہ کاٹا بلکہ یوں کہہ لیں کہ کٹوا دیا۔ ترین کو بشریٰ بیگم کی پارٹی کے اندر بڑھتی ہوئی سرگرمیوں پر تشویش تھی جس کی خبریں اُن تک پہنچ گئیں اور انہوں نے بنی گالا میں جہانگیر ترین کے منہ پر کہہ بھی دیا۔ عمران کے ذہن میں پہلے دن سے یہ تھا کہ انہیں جہانگیر ترین کی قربانی دینی ہو گی لہٰذا میاں نواز شریف کی نااہلی کو بیلنس کرنے کیلئے ترین کو اُس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار سے نااہل کرایا گیا۔ یہ بات ترین نے قریبی لوگوں کو بتائی ہے کہ انہیں نااہل کرانے میں عمران خان کا ہاتھ تھا۔
اسلام آباد کے ‘ سیف ہاؤس‘ کے ان سب کرداروں میں سب سے زیادہ فائدے میں عمران خان اور جنرل باجوہ رہے۔ باجوہ کا مقصد پورا ہوا اور انہوں نے 3 سال کے لیے مدتِ ملازمت میں توسیع کرا لی۔ یہی ان کا عمران کو پاور میں لانے کا پہلا اور آخری مقصد تھا۔ عمران وزیر اعظم تو بن گئے لیکن اس پورے کھیل میں جہانگیر ترین اورفیض حمید نقصان میں رہے۔ جہانگیر ترین نے کافی پیسہ خان پر لگایا اور ان کی حکومت بنانے میں مدد کی۔ موصوف نے اپنا ذاتی جہاز بھی استعمال کیا اور بنی گالا کے اخراجات تک اٹھاتے رہے لیکن جب اقتدار میں آنے کا وقت قریب آیا تو سب سے پہلے اس کا پتہ صاف کیا گیا۔
دنیا کا ہر مسئلہ مذاکرات سے حل کیا جا سکتا ہے : وزیر اطلاعات عطا تارڑ
سینیئر صحافی کہتے ہیں کہ اسی طرح فیض حمید بھی حیران ہوتے ہوں گے کہ جس قمر باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے لیے انہوں نے اتنا اہم رول ادا کیا تھا‘ وہی بعد میں ان کے خلاف ہو گیا تھا۔ آج قمر باجوہ توسیع سے مستفید ہونے کے بعد ریٹائر ہو چکے ہیں اور ترین کب کے سیاست چھوڑ چکے ہیں۔ باقی دو کردار عمران اور فیض حمید سزائیں سننے کا انتظار کررہے ہیں لیکن اسلام آباد کے اس سیف ہاؤس کے ان سبھی کرداروں میں سے جنرل باجوہ نے اچھا اور ستھرا کھیل کھیلا۔ انہوں نے مدتِ ملازمت میں توسیع بھی لے لی اور اب ریٹائرمنٹ کی آرام دہ لائف گزار رہے ہیں۔