اسٹیبلشمنٹ کا بنایاگیاپراجیکٹ عمران اسکے اپنے گلے کیسے پڑا؟

معروف لکھاری اور تجزیہ کار عمار مسعود نے کہا ہے کہ قیدی نمبر 804 ایک عذاب بن کر پاکستان پر نازل ہو چکا یے۔ تحریک انصاف کی جانب سے بار بار اسلام اباد پر دھاوا بولنے کے بعد معاملہ سنگین تر ہوتا جا رہا ہے۔ لہازا آخری جنگ کا آغاز ہو چکا ہے جس میں ایک کا خاتمہ یقینی یے، یعنی یا تو عمران خان بچے گا یا اس کے تخلیق کار بچیں گے۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں عمار مسعود کہتے ہیں کہ ہائی برڈ نظام کی گہری جڑیں زمین سے نکالنے سے زخم زمین پر ہی آ رہے ہیں۔ عمران خان ثانی، علی امین گنڈا پور حکومت کے ہی نہیں بلکہ ترقی، تہذیب، تمیز کے دشمن بن کر ابھرے ہیں لیکن اب بات تحریک انصاف کے متشدد بیانیے سے ماورا ہے۔ گنڈا پور پُر اسرار رستوں، تنگ گھاٹیوں اور انجان پگڈنڈیوں سے گزرتے ہوئے اچانک کے پی کے کی اسمبلی میں طلوع ہوگئے۔ دھرنے کے اس انجام تک پہنچنے سے پہلے کارکنوں نے پولیس کے جوانوں پر شیلنگ کی، کاروبار زندگی معطل رہا، جگہ جگہ آگ لگائی گئی، صوبے کے سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال ہوا، اس دوران یوتھیے بلوائیوں کے ہاتھوں ایک کانسٹیبل شہید ہوا، اور درجنوں زخمی ہوئے۔ دھرنے میں موجود سو سے زیادہ بپھرے ہوئے افغانی گرفتار ہوئے جنہوں نے انکشاف کیا ہے کہ انہیں 2 ہزار روپے فی بندہ کے معاوضے پر لایا گیا تھا۔ تحریک انصاف کے کارکن اسلام آباد میں رسوا ہوتے رہے جبکہ ’انقلاب‘ کے پی کے ہاؤس سے نکل کر پشاور اسمبلی میں جا پہنچا۔ ایک ولولہ انگیز تقریر ہوئی، جس میں مذہبی ٹچ کا تڑکہ لگایا گیا۔ بات آئی گئی ہو گئی اور معاملہ بس ایک کانسٹیبل کی لاش پر نمٹ گیا۔

عمار مسعود کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کا جن ہی قابو میں نہیں آ رہا ہے۔ زہریلا ناگ پیدا کرنے والوں کو اب اس کا تریاق نہیں مل رہا۔ انہوں نے ہر ٹوٹکا آزمایا کر دیکھ لیا۔ کبھی جیل کا عملہ سہولت کار بن کر مدد پر اتر آتا ہے، کبھی صحافیوں اور اینکروں کے بھیس میں انتشار کا ترانہ پڑھنے والے سامنے آ جاتے ہیں اور کبھی توڑ پھوڑ کرنے والے کارکن احتجاج پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ حالات کنٹرول میں نہیں آ رہے ہیں۔ بات بگڑتی جاتی ہے۔ پہلے جہاں سے دھواں اٹھتا دکھائی دیتا تھا اب وہاں آگ لگی نظر آتی ہے۔ عمار کہتے ہیں لہ فرض کریں تحریک انصاف آج اچانک انتشار سے توبہ کا اعلان کر دے۔ کارکنوں کو گالی گلوچ، لڑائی مار کٹائی جلاؤ گھیراؤ سے منع کر دے۔ وہ اپنے ریاست مخالف بیانیے پر معافی مانگ لے۔ وہ 9 مئی کے حملوں پر شرمسار ہونے کا فیصلہ کر لے۔ وہ اپنے رہنماؤں کو سماج میں نفرت پھیلانے سے منع کر دے۔ عمران خان عدالتی کارروائی کے بہانے مسلسل بکواس کرنے سے باز آ جائیں اور منہ میں گھنگھنیاں ڈال لیں۔ اسرائیل سے بھی تحریک انصاف کے حق میں اٹھنے والی سب آوازیں خاموش ہو جائیں۔ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت افغانستان کو در اندازی کی دعوت دینا بند کر دے۔ بیرسٹر سیف کا بھارتی وزیر خارجہ وجے شنکر کو دھرنے میں بلانے والا بیان ہماری یادداشتوں سے مٹ جائے۔ بیرون ملک سے چلنے والا تحریک انصاف کا شرپسند سوشل میڈیا خاموش ہو جائے۔ برطانیہ کی یہودی النسل گولڈ سمتھ فیملی پاکستان کے معاملات میں مداخلت بند کردے۔ دھرنوں، احتجاجوں اور لانگ مارچوں کے لیے ہونے والی فارن فنڈنگ کے سوتے خشک ہو جائیں اور تحریک انصاف مکمل امن و آشتی کی علامت بن جائے۔ لیکن اگر یہ سب ہو بھی جائے تو سوال یہ یے کہ کیا اس سے ملک کے حالات ٹھیک ہو جائیں گے؟ راوی چین ہی چین لکھ سکے گا؟

عمار مسعود کہتے ہیں کہ نہیں، ایسا نہیں ہو گا۔ ابھی اس مملکت کے لیے مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں۔ یہ بات یاد رکھیے گا کہ اگر تحریک انصاف قومی دھارے میں شامل ہو جائے گی تو پھر کوئی اور بڑی مشکل پیدا کر دے گی۔ 11 اکتوبر کو خیبر پختونخوا میں ہونے والا پشتون جرگہ اسی مہلک سلسلے کی کڑی ہے۔ حقوق کے لیے جو چاہے آواز اٹھائے یہ ریاست کے شہریوں کا حق ہے مگر علیحدگی کی آوازوں کی بازگشت کسی بھی ریاست کے لیے ناقابل قبول ہوتی ہے۔ ایک ایسا جرگہ ایک ایسی جماعت کی جانب سے جس پر ریاست پاکستان نے پابندی لگا دی ہو، وہ کیا گل کھلا سکتا ہے پاکستان سے مخلص لوگوں کو اس کا بہت اچھی طرح اندازہ ہے۔ جب تک پی ٹی ایم اپنے حقوق پر بات کرتی رہی ریاست کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ جائز مطالبات پر آواز اٹھانے میں کوئی حرج نہیں مگر علیحدگی کی باتیں جائز نہیں۔ یہیں سے اختلاف شروع ہوتا ہے جو ٹکراؤ پر منتج ہوتا ہے۔ لیکن شاید اس دفعہ ٹکراؤ ہی مقصود ہے۔ ریاست اگر پی ٹی آئی اور پی ٹی ایم سے نمٹ بھی لے تو بلوچستان میں ایک فتنہ جنم لے چکا ہے۔ وہاں سے بھی وہ آوازیں اٹھ رہی ہیں جو کوئی ریاست نہیں سننا چاہتی۔ بی ایل اے کے چاکر اب ریاست سے ٹکر لینا چاہتے ہیں۔ ہر روز کہیں دھماکے کی خبر آ جاتی ہے۔ غیر بلوچوں کے قتل کی رسم جاری ہے۔ انسانی جانوں کے ضیاع کی ارزانی نے ہمیں بے حس کر دیا ہے۔ بلاشبہ بلوچ نوجوان ایک بہتر مستقبل کے حق دار ہے تاہم حالات ایسے ہوچکے ہیں کہ ریاست اگر انہیں ان کا حق دینا بھی چاہے تو رستے میں قابل نفرین بیانیے حائل ہو جاتے ہیں۔ عمار کہتے ہین کہ انہی حالات میں پاکستان میں شنگھائی کواپریشن آرگنائزیشن کی کانفرنس بھی منعقد ہو رہی ہے۔ تاریکی میں سے روشنی کا پیغام آ رہا ہے۔ دنیا پاکستان کو عزت دنیا چاہتی ہے مگر پاکستان میں موجود چند گروہ اس عزت کو خاک میں ملانا چاہتے ہیں۔ معیشت میں ذرا سی بہتری ہوئی ہے۔ سٹاک مارکیٹ کو مدتوں بعد ہوش آیا ہے۔ بجلی کے نرخ کم ہو رہے ہیں۔ پیٹرول کی قیمت بھی بتدریج تنزلی کا شکار ہے۔ کاروباری طبقہ پھر سرگرم عمل ہو رہا ہے۔ آئی ایم ایف نے شرائط نرم کی ہیں۔ سات بلین ڈالر کا قرضہ منظور ہو رہا ہے۔ ترقی کے یہ اعشاریے پاکستان دشمنوں کے سینے پر انگاروں کی طرح لوٹ رہے ہیں۔ اس لیے وہ اس موقع کو برباد کرنے کی پوری کوشش کریں گے۔

عمار کہتے ہیں کہ رہا قصہ آئینی ترامیم کا تو وہ تو ہو کر رہیں گی۔ پی ٹی آئی کے سوا تمام سیاسی جماعتیں اس پر متفق ہیں۔ فیصلہ صرف یہ کرنا ہے کہ آئینی عدالت کی سربراہی کا ہما کس کے سر پر بیٹھے گا؟ فیصلہ بس ہونے والا ہے کہ آئینی عدالت کی مسند انصاف پر منصور شاہ براجمان ہو گا یا قاضی فائز عیسی کی حکمرانی ہو گی۔

Back to top button