خوشامدی بیوروکریسی نے شہباز اور مریم کو اپنا غلام کیسے بنا لیا ؟

معروف اینکر پرسن اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیراعلی پنجاب مریم نواز دونوں نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے اپنے سیاسی ساتھیوں کو خود سے دور کر دیا ہے اور صرف بیوروکریسی پر بھروسہ کر رہے ہیں، جس نے خوشامد سے دونوں کو اتنا شیشے میں اتار لیا ہے کہ اب وہ موقع پرست نوکر شاہی کہ غلام بن کر رہ گئے ہیں۔
روزنامہ جنگ کے لیے اپنی تازہ تحریر میں سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ خوشامدی نوکر شاہی چچا اور بھتیجی کو ٹھنڈے ڈرائنگ رومز میں انکے زیر سایہ ہونے والی بے مثال ترقی کے جھوٹے کارنامے سنا رہی ہے اور دونوں اقتدار کے نشے میں مخمور اپنے سر دھن رہے ہیں۔ لیکن مریم اور شہباز کو یاد رکھنا چاہیئے کہ سیاست تلخ حقائق میں سے فتح یاب ہو کر گزرنے کا نام ہے، پیشہ ور خوشامدی بیوروکریٹس حاکم کو شکست ہوتے ہی اسے چھوڑ کر غائب ہو جاتے ہیں اور کونوں کھدروں میں پناہ لے لیتے ہیں۔ ایک زمانے میں جب عمران خان سابق آئی ایس آئی سربراہ جنرل حمید گل کے ایما پر سیاست میں انٹری ڈالنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے تو انہوں نے اخبارات میں کالم لکھنے کا سلسلہ شروع کیا۔ ان کالموں میں لکھنے والے نے کئی نئی اصطلاحات متعارف کروائیں اور کئی پرانے لفظوں کو نئے معانی پہنائے، ان مضامین میں مغربی کلچر سے متاثر افراد کیلئے براؤن صاحب کی پھبتی اور سیاست میں خوشامدی کلچر کے بارے میں چمچہ کلچر کے عنوانات ابھی تک یاد کیے جاتے ہیں۔ عمران خان نے اس دور میں ان مضامین میں جو بھی لکھا تھا، اسے سمجھا نہیں۔ اسی وجہ سے ان کی اپنی حکومت میں بھی خوشامدی کلچر چھایا رہا، آج شہباز دور میں بھی اقتدار کے ایوانوں میں چمچے ہی چھائے ہوئے ہیں۔ ذاتی ملازموں کو وزیر اور مشیر کے عہدوں پر بٹھا کر گھر اور حکومت کا فرق مٹا دیا گیا ہے۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ پرسنل سٹاف آفیسرز، پرسنل سیکرٹریز اور اے ڈی سی ماضی میں کبھی اتنے طاقتور اور بااختیار نہیں ہوئے تھے جتنے آج کل ہیں۔ سیاست اور جینوئن اہل سیاست پچھلی صفوں میں بٹھا دیئے گئے ہیں جبکہ یس سر اور یس میڈم کی گردان کرنے والے بیوروکریٹس اس وقت پنجاب اور وفاق میں سب سے نمایاں نظر آ رہے ہیں۔ کہنے کو تو وفاق اور ہنجاب میں سیاسی حکومتیں ہیں لیکن اصل میں یہ ذاتی ملازموں کی حکومتیں ہیں۔ اقتدار کی میز پر بیٹھے سربراہوں نے جب اپنی ٹیم چننے کا فیصلہ کیا تو انہیں اپنے ساتھیوں سے زیادہ ملازموں پر پیار آیا، بڑا مسئلہ یہ تھا کہ موجودہ حکمرانوں کے سیاسی ساتھی برابری چاہتے تھے اور حرف تنقید سے بھی باز نہیں آتے تھے، لیکن دوستی طرف نوکر شاہی سے تعلق رکھنے والے ملازم حاکموں کی غلامی کرتے ہیں، وہ کبھی ان کے برابر نہیں بیٹھتے، وہ تنقید تو کجا کبھی اختلاف بھی نہیں کرتے، بلکہ میاں مٹھو والی خوشامد کا اتنا راگ الاپتے ہیں کہ حاکم کو یقین آ جاتا ہے کہ یہ واقعی سچ ہو گا۔
سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ پیشہ ور خوشامدی نوکر شاہی کی ٹیم آج کل وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کی کچن کابینہ ہے۔ سیاست دانوں سے نفرت کرنے والی اس نوکر شاہی کی جانب سے حکمرانوں کو ملنے والے مشوروں کے نتیجے میں وفاق اور پنجاب کے اہل اقتدار کے لیے نہ تو اپنے سیاسی ساتھیوں کی کوئی اہمیت ہے اور نہ ہی عوام سے ان کا کوئی رابطہ یے۔ چچا اور بھتیجی خوش ہیں کہ شاہی نوکروں کی جانب سے ان کی واہ واہ ہو رہی ہے، اور کہیں سے تنقید اور اختلاف سنائی نہیں دیتا۔ کاش کوئی انہیں بتائے کہ آپ تو ذاتی ملازموں میں گھرے ہیں، آپ کے وزیر، مشیر آپ کے ذاتی ملازم رہے ہیں جو نوکری پیشہ ہیں لہٰذا وہ آپ سے اختلاف کیوں کریں گے؟ ان کا ہنر تو ہے ہی حاکم کی خوشامد۔ ہر خوشامدی کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ کبھی اپنے ممدوح کے قدم زمین پر لگنے نہیں دیتا۔ خوشامدی ہمیشہ حاکم کو پتنگ کی طرح اونچا اڑا کر فضا میں معلق رکھتا ہے، لیکن یاد رہے کہ جب اقتدار کے جھولے ختم ہوتے ہیں تو حاکم آسمان سے دھڑام سے سیدھا زمین پر آ گرتا ہے۔
سینیئر صحافی کے بقول یہ درست ہے کہ ہر انسان چاہتا ہے کہ وہ اپنے کمفرٹ زون comfort zone میں رہے۔ ویسے بھی ذاتی ملازموں اور خوشامدیوں سے زیادہ سکون اہل اقتدار کو کوئی نہیں پہنچا سکتا، لیکن ایک کامیاب سیاستدان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے کمفرٹ زون سے باہر نکل کر اپنے مخالفوں، ہم پلہ ساتھیوں، حتیٰ کہ گالیاں دینے والوں کی بات بھی سنے، آپ آج وفاقی اور صوبائی کابینہ کا ایک ایک نام گنوا لیں، کیا ان میں سے کوئی ایک بھی اپنے کمفرٹ زون سے نکلنے کو تیار ہے؟ کیا ان میں کوئی بھی خوشامدیوں کا گھیرا توڑ کر چچا یا بھتیجی کو بتائے گا کہ ان کی کمزوریاں اور خامیاں کیا ہیں؟ دراصل یہ سب چمچوں کی سنتے ہیں، کبھی چھری کے زخم بھی کھا کر دیکھیں۔ حکمران صرف میٹھا میٹھا ہپ ہپ نہ کریں بلکہ کڑوا بھی چکھیں۔ آج کے اہل اقتدار بھی ماضی کے حکمرانوں کی طرح زمینی حقائق سے دور، مصنوعی ماحول میں زندہ ہیں، نہ یہ عوام کا سامنا کرنے کو تیار ہیں اور نہ یہ ’’اتھرے خیالات‘‘ کو سننے کو تیار ہیں۔
تحریک انصاف انتشار کا شکار ہونے کے بعد زوال کی جانب گامزن
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ وفاق کی طرف دیکھیں تو مہا منتری کی کابینہ میں ذاتی عملے کی فراوانی ہے، جو چند سیاسی چہرے باامر مجبوری کابینہ میں شامل کئے گئے ہیں انکے پاس نہ تو کوئی اختیار ہے اور نہ ہی ان کا کوئی اعتبار۔ تمام تر اختیارات مہامنتری کے ذاتی سٹاف کے پاس ہیں، اکثر وفاقی وزیروں کے کام یا تو رک جاتے ہیں یا ان کی فائلوں میں اس قدر تاخیر کی جاتی ہے کہ وہ جھنجلائے رہتے ہیں، پنجاب بھی ایسا ہی نظام ہے، وہاں نوکر شاہی سے تعلق رکھنے والے سیکرٹریوں کا بول بالا ہے اور عوام کی جانب سے منتخب ہونے والے وزیروں کا حال پتلا ہے۔ مریم نواز کے پرنسپل سیکرٹری کی مہر ہر جگہ طاقت چلاتی نظر آتی ہے۔ صحت کے شعبے میں ایک وزیر اور سیکرٹری کی بیک وقت سرد اور گرم جنگ جاری ہے، خاتون سیکرٹری اس قدر طاقتور ہیں کہ اہم ترین سیاسی وزیر مسلسل پریشان پھرتے ہیں۔ وفاق اور صوبے کی اس صورت حال میں سیاست دب گئی ہے اور نوکر شاہی نے وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کو خوشامد سے اس قدر شیشے میں اتار لیا ہے کہ وہ اپنے ساتھی سیاست دانوں کی کم اور اپنے ذاتی عملے اور نوکر شاہی کی زیادہ سنتے ہیں۔ سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ کابینائیں ہوں یا حکومتی کارکردگی، ہمیشہ بالادستی سیاست اور گڈ گورننس کی ہونی چاہیے، اسکی وجہ یہ ہے کہ سیاسی شکست کی ذمہ داری نہ تو آپکا ذاتی ملازم اور نہ ہی نوکر شاہی اٹھاتی ہے۔ سیاسی شکست یا جیت کا کریڈٹ یا ڈس کریڈٹ صرف اور صرف سیاسی کارکنوں اور سیاسی ساتھیوں نے اٹھانا ہوتا ہے لہٰذا انہیں اپنے ساتھ چلانا، ان کی عزت کرنا اور ان کا وقار بڑھانا ہی اصل سیاست ہے۔ ماضی میں کامیاب اور ناکام سیاستدانوں کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ جو سیاستدان اقتدار میں آ کر اپنے ذاتی عملے کی خوشامد اور نوکر شاہی کی تعریفوں کے جھانسے میں آ کر خود کو قابل، ذہین اور باکمال سمجھنے لگتا ہے، وہ پرلے درجے کا بے وقوف ہوتا ہے اور ناکامی اس کا مقدر ہوتی ہے۔ ہمیشہ وہی حکمران کامیاب رہتے ہیں جو خوشامدیوں اور چمچوں کی تعریفوں کو ہنسی میں اڑا کر چھریوں، کانٹوں اور تلواروں کے جھرمٹ سے اپنا راستہ بناتے ہیں۔