پی ٹی آئی میں مزاحمتی اور مفاہمتی دھڑوں کی جنگ میں تیزی
پی ٹی آئی اندرونی طور پر دھڑے بندی، شدید اختلافات اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہے۔ پارٹی کے اندر کئی گروپ بن چکے ہیں لیکن دو دھڑے ایسے ہیں جن کی وجہ سے معاملات تقسیم کی طرف جا رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ان میں ایک دھڑا انتہا پسندی اور دوسرا ’اندر اندر کھائی جا اوتوں رولاپائی جا‘ کی پالیسی پر مصروف عمل دکھائی دیتا ہے۔ انتہا پسند دھڑاآریاپار کی سیاست کا متمنی ہے جبکہ حکومت یا اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کو ڈھونگ قرار دیتے ہوئے اسے فوری ختم کرنے کا خواہاں ہے جبکہ دوسرا دھڑا مفادات کے حصول کے لیے ہلکی پھلکی موسیقی کو برقرار رکھنے کا حامی ہے۔ مبصرین کے مطابق پی ٹی آئی کے انتہا پسند دھڑے کے زیادہ تر حامی جیلوں میں بند ہیں یا بیرون ملک مقیم ہیں جبکہ کچھ عمران خان کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد سے بلوں میں چھپے بیٹھے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس وقت پی ٹی آئی کا مفاہمتی دھڑا بظاہر طاقتور نظر آ رہا ہے۔ تاہم اس دھڑے کی پالیسی کب تک چلے گی اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
مبصرین کے مطابق بانی پی ٹی آئی عمران خان نے اس وقت دوغلی پالیسی اپنا رکھی ہے اور سب کچھ جانتے اور سمجھتے ہوئے بھی دونوں دھڑوں کی ہاں میں ہاں ملانے دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ ان کا مطمع نظر صرف یہی نظر آتا ہے کہ کسی طرح انھیں قید سے رہائی مل جائے۔ اس کیلئے وہ پاؤں پکڑنے کے ساتھ ساتھ شرپسندانہ بیانات دینے سے بھی پیچھے ہٹتے دکھائی نہیں دے رہے۔ ناقدین کے مطابق عمران خان کی انتہا پسندی کا نتیجہ جو بھی نکلتا ہے لیکن یہ خود بانی کے مزاج سے ہم آہنگ ہے۔ مبصرین کے مطابق انتہا پسند گروپ بانی پی ٹی آئی کے انتہائی قریب ترین لوگوں پر مشتمل ہے اور وہ بانی پی ٹی آئی کو یہ بات باور کر اچکے ہیں کہ مفاہمتی دھڑا اپنے مفادات کے حصول کے لیے بانی کو جھوٹا حوصلہ دینے اور مختلف حوالوں کے ذریعے گمراہ کرتاہے اور یہ لوگ نہیں چاہتے کہ بانی کو کسی طرف سے کوئی قانونی ریلیف مل جائے۔ لیکن بانی یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی حالات کے بھنور میں ایسے پھنس چکے ہیں کہ وہ ان دونوں دھڑوں میں سے کسی کے خلاف بھی فی الوقت کوئی قدم اٹھانے سے قاصر ہیں۔ خود انہوں نے کئی مواقع پر اس مفاہمتی گروپ کے بارے میں ناپسندیدگی کا واضح الفاظ میں اظہار بھی کیا ہے لیکن عملی طور پر وہ اس حوالے سے کچھ نہیں کر سکے۔ جبکہ انہوں نے دوسرے انتشاری گروپ کے ہر عمل کی بھرپور حمایت کی ہے۔
مبصرین کے مطابق پی ٹی آئی میں بعض لوگ اپنے خلاف مقدمات اور دیگر مجبوریوں کی وجہ سے پارٹی سے جڑے ہوئے ہیں۔ذرائع کے مطابق ان میں بعض زیرک سیاستدان بھی شامل ہیں جو جانتے ہیں کہ پی ٹی آئی کا انجام کیا ہے اور آگے ان کا پارٹی کے اندر کیا مقام ہوگا۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اس وقت یہ پارٹی کیسے غیر سیاسی لوگوں کے نرغے میں پھنس چکی ہے اور ان کے مقاصد کیاہیں۔ انھیں یہ بھی معلوم ہے کہ عمران خان کو چھوڑ کے بیرون ملک بھاگے ہوئے لوگ جو لابنگ کر رہے تھے اور بانی کو جھوٹی تسلیاں دے رہے تھے جس پر اربوں روپے بھی خرچ ہوئے۔ وہ تمام پیسہ اور کوششیں رائیگاں ہو چکی ہیں۔کیونکہ پارٹی قیادت تمام حربوں کی ناکامی کے بعد جس ٹرمپ نامی ’سہارے‘ کاکارکنوں اور دوسرے درجے کے بے خبر رہنماؤں کو آسرا دے رہی تھی وہ بھی ختم ہو گیا ہے۔ اس بارے میں ذرائع نے بتایا کہ ایک دوست ملک کی اہم ترین شخصیت نے اس بارے میں امریکی صدر ٹرمپ کو انتہائی قریبی ذریعہ سے پیغام بھیجا ہے کہ وہ بانی پی ٹی آئی کے معاملات سے گریز کریں اور اس میں کوئی مداخلت نہ کریں وہ شخصیت اتنی اہم ہیں کہ ان کی بات کو رد کرنا امریکی انتظامیہ کیلئے آسان نہیں ہے ۔ اس لئے اب یوھیے رہنما بھی ٹرمپ کارڈ کو ختم شد قرار دے رہے ہیں۔
مبصرین کے مطابق عمران خان کی مشکلات کم ہونے کی بجائے بڑھتی جا رہی ہیں۔ باہمی الزام تراشیوں اور عدم اعتماد کی وجہ سے تحریک انصاف اور حکومتی کمیٹیوں کے مذاکرات ’لا حاصل‘ ہوتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اِدھر مذاکرات کی بات شروع ہوتی ہے اُدھر خان صاحب کی دھمکی آمیز ٹویٹ آ جاتی ہے۔ مذاکرات کے باقاعدہ آغاز سے قبل ہی عمران خان کی طرف سے وزیراعظم شہباز شریف کو آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے ’کٹھ پتلی اور اردلی‘ قرار دینے پر اور مذکراتی عمل کے بعد عمران خان کی جانب سے عسکری قیادت پر الزام تراشیوں پر مبنی ٹوٹٹ پر حکومتی وزرا سیخ پا ہوگئے اور کہنے لگے کہ ایسے حالات میں مذاکرات آگے کیسے بڑھ سکتے ہیں۔
مبصرین کے مطابق عمران خان کی تند و تیز ٹوئٹس کے پیچھے بہت سے عوامل ہوسکتے ہیں، مگر 2 بہت اہم ہیں۔ پہلا یہ کہ وہ سمجھتے ہیں کہ بیرونی دباؤ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو مجبور کردے گا یوں انہیں رہائی مل جائے گی اور دوسرا شاید ان کے خیال میں موجودہ حکومت سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام کا خواب پورا نہیں کر پائے گی، اور انہیں جیل سے نکالے بغیر سیاسی استحکام ممکن نہیں۔ وہ اپنی ہر ٹویٹ کے ذریعے ملک کی سیاست میں ایک ہیجانی صورت حال برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔اعصاب کی اس جنگ میں جیت کس کی ہوگی کوئی نہیں جانتا۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ عمران خان کا جارحانہ طرز سیاست اور پارٹی میں گروپ بندی بانی پی ٹی آئی کو ریلیف کی فراہمی میں بڑی رکاوٹ بن چکی ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف تنہائی اور اندرونی خلفشار کا شکار ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ موجودہ حالات میں حکومت کی سینیئر قیادت عمران خان کی کسی ڈیل کے نتیجے میں رہائی کے حق میں نہیں ہے۔کیونکہ حکومت سمجھتی ہے عمران خان کی رہائی سے ملک میں کسی قسم۔کا سیاسی استحکام نہیں آئے گا بلکہ عمران خان کی واپسی ملکی مسائل اور مشکلات میں اضافے کا سبب بن سکتی ہے۔