عمران کا سوشل میڈیا بریگیڈ انکی بربادی کا بندوبست کیسے کر رہا ہے ؟

معروف لکھاری اور تجزیہ کار عمار مسعود نے کہا ہے کہ اڈیالہ جیل میں بند عمران خان درون خانہ پکار پکار کر این آر او مانگ رہے ہیں مگر موصوف کا سوشل میڈیا کہہ رہا ہے  کہ ’ڈٹ کے کھڑا ہے کپتان ‘۔ کپتان گڑ گڑا کر اپنے گناہوں کی معافی مانگ رہا ہے لیکن اس کا سوشل میڈیا نعرہ لگا رہا ہے کہ ’کیا ہم کوئی غلام ہیں؟‘ عمران خان جیل میں پوری کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح فوجی قیادت سے ان کے تعلقات درست ہو جائیں اور وہ اس مشکل سے باہر نکلیں مگر ان کا سوشل میڈیا نعرہ لگا رہے کہ ’تیرا باپ بھی دے گا آزادی ‘۔ ان کا کہنا ہے کہ دراصل کپتان کا سوشل میڈیا بریگیڈ ہی اس کی بربادی کا بندوبست کر رہا ہے۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے عمار مسعود کہتے ہیں ایسا لطیفہ شاید ہی کسی ملک میں ہوا ہو کہ ایک شخص جو جیل میں کرپشن کے جرائم ثابت ہونے پر قید ہے، اسے نہ فون کی سہولت میسر ہے نہ انٹرنیٹ دستیاب ہے، نہ اس نے کبھی کچھ تحریر کرنے کی غرض سے کاغذ  قلم طلب کیا ہے ، اس کا ہر چوتھے دن کسی انٹرنیشنل اخبار میں مضمون شائع ہو جاتا ہے جس میں وہ پاکستان اور فوجی قیادت کو مطعون و ملعون کرتا ہے۔ کبھی کسی بین الاقوامی شہرت کے حامل جریدے میں اس کا انٹرویو شائع ہو جاتا ہے جبکہ اس سے کسی صحافی کی ملاقات بھی نہیں ہوتی، اس کا ٹوئیٹر اکاؤنٹ ایسے ایسےٹویٹ کر رہا ہے کہ جو عمران خان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوں گے۔

عمار مسعود کہتے ہیں کہ اس کا سوشل میڈیا وہ زبان بول رہا ہے جو اس کے لیے ہی مصیبت بنتی جا رہی ہے۔ لہٰذا سوال یہ بنتا ہے کہ خان کا سوشل میڈیا کون چلا رہا ہے؟ اس ٹوئیٹر کے پیچھے کون سی قوتیں ہیں؟ ملک میں بدامنی پھیلانے کے منصوبے کہاں بن رہے ہیں؟ نوجوانوں کی گمراہی کا سبب کون بن رہا ہے؟ طاقت کے اس کھیل میں عمران خان کیا اپنے سوشل میڈیا کا بھی قیدی ہو گیا ہے؟ کیا اپنے بیانیے کی گرفت میں وہ آ گیا ہے جو اس وقت مفاہمت پر پوری طرح رضامند ہے؟

عمار مسعود کہتے ہیں کہ یہ بات بہت واضح ہے کہ پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا عمران خان کے کنٹرول سے باہر ہے کیوں کہ وہ جو زبان بول رہا ہے اس سے خان کی رہائی ممکن نہیں۔ جب بھی بات مفاہمت کی ہوتی ہے، کچھ رعایتیں ملنے لگتی ہیں، کچھ ربط ضبط شروع ہوتا ہے اس سوشل میڈیا پر اچانک آگ لگا دی جاتی ہے۔ پھر رہائی کے منصوبے تلپٹ ہو جاتے ہیں اور رعایتوں کی امید  آناً فاناً دم توڑ جاتی ہے۔ اس ظالم سوشل میڈیا کو عمران خان کی رہائی قبول ہے نہ پسپائی خوش آتی ہے۔ اس کو عمران کی شہادت درکار ہے۔ تاکہ یہ سوشل میڈیا عمران خان کے مزار پر ہر روز عرس منائے اور احتجاج کے نام پر چندے کمائے۔ چند بدبخت جو ملک چھوڑ چکے ہیں انہیں فکر لاحق ہے کہ خان رہا ہو گیا تو ان کی کمائی کو نظر لگ جائے گی، ڈالروں کی ترسیل رک جائے گی، جھوٹ کی کمائی کو گھن لگ جائے گا۔ اس لیے وہ ہر لمحہ بغاوت کا پیغام دیتے ہیں۔ بدقسمتی سے یہ بغاوت حکومت سے بھی ہے، آئین سے بھی ہے، افواج سے بھی ہے اور ریاست سے بھی ہے۔

انکا کہنا ہے کہ اتنی بہت سی بغاوتیں کبھی کامیاب نہیں ہوتیں۔ ان کا نتیجہ پسپائی ہی نکلتا ہے مگر ڈالروں والے سوشل میڈیا کو یہ پسپائی قبول نہیں۔ یہ سوشل میڈیا عمران خان کا سب سے بڑا اثاثہ بھی ہے اور یہی خان کا سب سے  دشمن بھی ثابت ہو رہا ہے۔ اس کے خمیر سے پی ٹی آئی نے جنم لیا اور یہی پی ٹی آئی کی چتا کو آگ دکھانے کے درپے بھی ہے۔

عمار مسعود کہتے ہیں کہ ایک انتہائی باوثوق ذریعے کے مطابق پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا روزانہ 6 کروڑ روپیہ خرچ کر رہاہے۔ دھیان رہے کہ یہ پیسہ امریکا میں لابنگ کے  اخراجات کے سوا ہے۔ روز کے 6 کروڑ ایک مہینے کے ایک ارب 80 کروڑ بنتے ہیں۔اور اس رقم کو اگر سال پر ضرب دیا جائے تو یہ رقم قریباً 22 ارب روپے سالانہ بنتی ہے۔ حکومت یا فوجی اسٹیبلشمنٹ اس سوشل میڈیا کا مقابلہ کیسے کر سکتی ہے؟ نہ اتنی رقم حکومت کے پاس ہے نہ کسی سیاسی جماعت کی اتنی بساط ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ رقم کہاں سے آتی ہے؟ عمران خان نے تو کبھی گھر آنے والوں کو چائے تک نہیں پوچھی۔ گھر کا خرچہ بھی دوست احباب نے ہمیشہ ادا کیا۔ تو پھر اتنی رقم کا بندوبست کہاں سے ہوتا ہے۔

عمار مسعود کہتے ہیں کہ اتنی بڑی رقم کے صرف دو ذرائع ہو سکتے ہیں۔ ایک تو شوکت خانم میں غریبوں کے مفت علاج کے نام پر جو رقم آتی ہے اس کو پارٹی کے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ تحریک انصاف کے بانی رکن اکبر ایس بابر کا سارا رونا ہی یہی ہے۔ ٹی وی کی اسکرینوں پر ایک معصوم کینسر زدہ بچے کی تصویر دکھا کر زکوۃ اور خیرات مانگی جاتی ہے اور وہ پارٹی کے جلسوں انتشار، لانگ مارچ اور ہنگامہ آرائی کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ اتنی بڑی رقم کا دوسرا ذریعہ عمران خان کا پہلا سسرال بھی ہے۔ گولڈ سمتھ خاندان کے لیے یہ رقم بہت معنی نہیں رکھتی ہے۔ لیکن کیا یہ رقم وہ عمران خان کی رہائی کے لیے خرچ کر رہے ہیں یا اس ملک میں یہودی لابی کی سازشیں پھیلانے کے لیے یہ سرمایہ کاری ہو رہی ہے؟ ان سوالوں کا جواب ابھی تشنہ ہے لیکن سچ یہ ہے سوشل میڈیا جس بے مہار طریقے سے آگے بڑھ رہا ہے یہ عمران خان کے لیے بڑی مصیبت کا پیغام لا رہا ہے۔

دلچسپ تماشا یہ ہے کہ اس سوشل میڈیا نے عمران خان کو ایک ایسا برینڈ بنا دیا ہے جو ملک کے آئین سے لے کر افواج تک ہر ایک سے متصادم ہے۔ بیرون ملک یو ٹیوبرز اس برینڈ سے اس ملک کے خلاف زہر اگلتے ہیں اور ڈالر کماتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے نہ انہیں عمران خان کی پرواہ ہوتی ہے نہ ان کی پارٹی سے کچھ لینا دینا ہوتا ہے، ان کو بس لائکس اور ویوز سے غرض ہوتی ہے، چاہے اس کے لیے اپنی ماں دھرتی کو بھی گالی ہی کیوں نہ دینا پڑ جائے۔

عمران 26 نومبر جیسے احتجاج کی کال دینے سے خوفزدہ کیوں ہیں ؟

عمار مسعود کے بقول ذرائع بتاتے ہیں کہ عمران خان درون خانہ پکار پکار کر این آر او مانگ رہے ہیں مگر خان کا سوشل میڈیا کہہ رہا ہے ’ڈٹ کے کھڑا ہے کپتان ‘۔ یاد رکھیے! اسی سوشل میڈیا سے تحریک انصاف بنی تھی اور یہی سوشل میڈیا عمران خان اور تحریک انصاف کی مکمل بربادی کا سبب بنے گا۔ جیل سے آن لائن رہنے والا جھوٹ اب پکڑا جا چکا ہے، اب اس مکر و فریب کے پیچھے چھپے کرداروں کو سامنے لانے کا وقت آ گیا ہے۔

Back to top button