بلوچ قوم پرست اکبر بگٹی موت کے بعد زیادہ طاقتور کیسے بن گے ؟
جس طرح 1979 میں پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو پھانسی کے پھندے پر جھول جانے کے باوجود پاکستانی سیاست میں آج تک زندہ ہیں اسی طرح جنرل پرویز مشرف کے حکم پر سال 2006ء میں شہید کیے جانے والے بلوچ قوم پرست رہنما نواب اکبر بگٹی اپنی موت کے باوجود نہ صرف زندہ ہیں بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ مذید طاقتور ہوتے جا رہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی طرح نواب اکبر بگٹی بھی پاکستانی سیاست کا ایک دیو مالائی کردار بن چکے ہیں۔ تاہم افسوسناک بات یہ ہے کہ اکبر بگٹی نے ساری عمر پارلیمانی سیاست کی اور بلوچستان کے گورنر اور وزیر اعلی بھی بنے۔ لیکن آج کے بلوچستان میں علیحدگی پسند تحریک چلانے والوں نے نہ صرف عسکریت پسندی کا راستہ اپنا لیا ہے بلکہ وہ بگٹی کے نام لیوا بن کر پاکستان توڑنے کی بات بھی کرتے ہیں اور معصوم سویلینز کا قتل عام بھی کر رہے ہیں۔ لیکن اس صورت حال کی ذمہ دار بنیادی طور پر فوجی اسٹیبلشمنٹ ہے جس کے سپہ سالار نے اپنی ذاتی انا کی تسکین کے لیے ایک 80 برس کے پیرانہ سال بلوچ رہنما کو مارنے کے لیے فوجی دستے پہاڑوں کی غاروں میں بھیجے جہاں انہیں قتل کیا گیا۔
بلوچستان لبریشن آرمی کی بڑھتی ہوئی طاقت کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟R
پاکستان کی سیاسی تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے دانشوروں کا کہنا ہے کہ جس طرح ضیاء الحق کو اندازہ نہیں تھا کہ زندہ بھٹو سے زیادہ طاقتور اور پاپولر اس کی روح ثابت ہو گی اسی طرح جنرل پرویز مشرف کو بھی یہ اندازہ نہیں تھا کہ اکبر بگٹی مرنے کے بعد زیادہ مقبول اور خطرناک ثابت ہو گا۔ یوں پاکستانی فوجی اسٹیبلشمنٹ ذوالفقار علی بھٹو اور نواب اکبر بگٹی کو قتل کرنے کے باوجود ہار گئی اور بھٹو اور بگٹی مر کر بھی جیت گئے۔ آج بھٹو اور بگٹی دونوں لیجنڈری قومی ہیروز ہیں جبکہ جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف کو نہ صرف فوجی ڈکٹیٹر ہونے کی بنیاد پر نفرت کا سامنا ہے بلکہ انہیں قومی ولن قرار دیا جاتا ہے۔
بظاہر نواب اکبر بگٹی اور جنرل مشرف کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے مابین سیاسی کشمکش اور تصادم کا آغاز بلوچستان کے علاقے سوئی میں ایک گیس پلانٹ میں تعینات خاتون ڈاکٹر شازیہ خالد کے ساتھ ایک فوجی کی جانب سے جنسی زیادتی سے ہوا۔ نواب اکبر بگٹی نے بلوچ روایات کے تحت شدید ترین ردعمل دیتے ہوئے اس فوجی افسر کا نام پبلک کر دیا اور اسے خاتون ڈاکٹر کی بے حرمتی کا مجرم قرار دے کر اس کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کر دیا۔ لیکن جنرل مشرف نے میجر کے خلاف کارروائی کا مطالبہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ لیکن معاملہ تب مزید خراب ہو گئے جب 2000 میں بلوچستان ہائیکورٹ کے سینیئر جج جسٹس نواز مری کو دن دیہاڑے کوئٹہ کے ریڈزون میں قتل کر دیا گیا۔ اس قتل کا الزام نواب خیر بخش مری اور ان کے بیٹوں پر عائد کر کے مری خاندان کو گرفتار کر لیا گیا۔ بزرگ رہنما مری اور انکے بیٹے قتل کے الزام میں کئی سال کوئٹہ جیل میں پابند سلاسل رہے۔ اس دوران مشرف کی اسٹیبلشمنٹ نے جندران میں موجود تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنے اور انہیں اپنے استعمال میں لانے کے لیے نواب مری کو شرائط پیش کیں لیکن جب انہوں نے ان شرائط کو تسلیم کرنے سے انکار کیا تو بلوچستان کے مکمل محاصرے کی پالیسی اختیار کی گئی۔ پہلے قلات کے مقام پر بے گناہ بلوچوں کو قتل کر کے انہیں را کا ایجنٹ قرار دیا گیا اور پھر سال 2002 میں گوادر، سوئی اور کوہلو میں تین نئی فوجی چھاؤنیوں کے قیام کے علاوہ گوادر میں منصوبوں کے اعلانات کیے گئے۔ بلوچ قوم پرست سمجھتے ہیں کہ ان تمام منصوبوں کا بنیادی مقصد مقامی آبادی کو اقلیت میں تبدیل کرنا اور فوجی چھاؤنیوں کے ذریعے بلوچستان پر اپنے قبضے کو مزید مستحکم بنانا تھا۔
اربوں ڈالر، کے ان نام نہاد ترقیاتی منصوبوں پر نہ تو بلوچ عوام کو اعتماد میں لیا گیا، اور نا ہی ان کے خدشات اور تحفظات کو رفع کرنے کی کوشش کی گئی، بلکہ مشرف جنتا نے بزور طاقت ان منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کا واضح اور برملا اعلان کر دیا۔ دوسری طرف گودار کے لیے جو ماسٹر پلان بنایا گیا اس نے مقامی آبادی سمیت پوری بلوچ قوم کو مزید گہری تشویش میں مبتلا کر دیا۔ ان تمام واقعات نے جلتی پر تیل کا کام دکھایا اور یہیں سے بلوچ قومی تشخص اور بلوچ ساحل و وسائل کو اسلام آباد کی دستبرد سے بچانے کی نئی عوامی تحریک نے جنم لیا جو اب شدت پسند تحریک بن چکی ہے۔ نواب بگٹی کی قیادت میں چار جماعتی بلوچ اتحاد بشمول جمہوری وطن پارٹی، نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی، اور بلوچ حق توار نے ان نو آبادیاتی منصوبوں کے خلاف شہری سیاست کو منظم کرنے کی حکمت عملی اختیار کی۔ نواب بگٹی نے ڈیرہ بگٹی میں ہی بیٹھ کر اس تحریک کی قیادت اور ترجمانی کے فرائض سرانجام دیے۔ انہوں نے ملکی اور عالمی ذرائع ابلاغ میں بلوچ مقدمے کی بھرپور وکالت کی۔
اس دوران مارچ 2005 میں جنرل مشرف کے احکامات پر ڈیرہ بگٹی میں نواب بگٹی کے قلعہ اور رہائش گاہ پر حملہ کیا گیا جس میں 60 سے زائد بے گناہ بلوچ مارے گئے اور 100 سے زائد زخمی ہو گئے۔ اس حملے میں نواب بگٹی بال بال بچ گئے۔ انہوں نے کولہو اور سوئی کے درمیان واقع پہاڑی غاروں کی طرف ہجرت کی اور وہاں سے اپنی جدوجہد جاری رکھنے کا اعلان کیا۔ لیکن جنرل پرویز مشرف کے فوجی دستوں نے بگٹی کی تلاش شروع کر کے ان کے گرد گھیرا تنگ کرنا شروع کر دیا۔ اس دوران مشرف نے باقاعدہ اعلان کیا کہ اکبر بگٹی کو پتہ بھی نہیں چلے گا کہ کہاں سے میزائل آئے گا اور انہیں ٹھوک جائے گا۔ کچھ روز بعد فوجی دستوں نے بگٹی کو ایک غار میں گھیر لیا لیکن بگٹی نے گرفتاری دینے سے انکار کر دیا۔ 26 اگست 2006 کو انہوں نے ایک فوجی آپریشن کے دوران لڑتے ہوئے شہادت قبول کی۔ اس حوالے سے فوجی حکام کا کہنا ہے کہ جب بگٹی کو گرفتار کرنے کے لیے کمانڈوز غار میں داخل ہوئے تو انہوں نے بارودی دھماکہ کر دیا جس کے نتیجے میں ان کی موت ہوئی۔ اس حوالے سے دوسرا موقف یہ ہے کہ بگٹی سے مزاکرات کی آڑ میں فوجی دستے پہاڑی غار کے اندر بھیج کر مشرف کے حکم پر میزائل داغا گیا جس سے بگٹی اور انکے 37 ساتھیوں کے علاوہ 21 فوجی افسران اور کمانڈوز مارے گے۔ اس فوجی آپریشن میں کل 58 افراد مارے گئے اور یہ سب پاکستانی تھے۔ لہازا ساری زندگی بلوچوں کے حقوق کے لیے پارلیمانی اور جمہوری سیاست کرنے والے اکبر بگٹی کی ایک فوجی آپریشن میں شہادت نے بلوچ قوم پرستوں کو مسلح جدوجہد کی "جسٹی فکیشن” فراہم کر دی اور انہوں نے عسکریت پسندی کا راستہ اپنا لیا جس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ شدت آتی جا رہی ہے۔
جنرل پرویز مشرف کی فوجی اسٹیبلشمنٹ سمجھتی تھی کہ بلوچستان میں قومی حقوق، ساحل و وسائل کی ابھرتی ہوئی عوامی تحریک کی اصل وجہ نواب بگٹی ہی ہیں لہٰذا انہیں جسمانی طور۔پر ختم کر کے ہی بلوچستان میں نئے منصوبوں کو عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے، لیکن ف2ج کا یہ اندازہ غلط ثابت ہوا۔ آج نواب بگٹی کی شہادت کو 18 سال بیت گئے ہیں لیکن نہ تو بلوچستان میں امن ممکن ہو سکا ہے اور نا ہی وہاں جاری جدوجہد میں کمی آئی ہے، سچ تو یہ ہے کہ بلوچستان آج ماضی کی نسبت زیادہ مسائل کا شکار ہے۔ بنیادی انسانی حقوق کی پامالی نے ایک انتہائی سنگین بحران کی شکل اختیار کی ہے۔ سیاسی و معاشی حقوق کی محرومیوں میں مزید اضافہ ہو چکا ہے۔ حکومت نام کی کوئی چیز وجود ہی نہیں رکھتی۔ ہر معاملہ ڈنڈے کے زور پر چلایا جا رہا ہے۔
بلوچستان کی تاریخ پر نظر رکھنے والے کہتے ہیں کہ نواب بگٹی کے قتل نے بلوچستان میں مزاحتمی تحریک کو ایک نئی زندگی دی اور یہ تحریک کوہلو اور ڈیرہ بگٹی سے نکل کر آواران اور مکران تک پہنچ گئی۔ اکبر بگٹی نے اپنی شہادت سے پہلے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ میرے مرنے کے بعد بھی بلوچوں کے حقوق کی تحریک ختم نہیں ہو گی، اور نوجوان نسل اس جدوجہد کو اگے بڑھائے گی۔ ان کا کہا سچ ثابت ہوا لیکن شاید وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ ان کی سیاسی جدوجہد ان کی شہادت کے بعد عسکری جدوجہد میں تبدیل ہو جائے گی۔ یوں اکبر بگٹی تو بلوچ حقوق کی جنگ لڑتے ہوئے مارا گیا لیکن اس کی روح آج بھی زندہ ہے جو زندہ بگٹی سے زیادہ خطرناک ثابت ہو رہی ہے۔