خیبر پختونخواہ سینٹ الیکشن : PTI کی 3 سیٹیں چھنے کا امکان

سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں بارے فیصلے کے سیاسی آفٹر شاکس کا سلسلہ جاری ہے۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے سے مخصوص نشستوں سے محروم ہونے کے بعد اب پی ٹی آئی کوخیبرپختونخوا اسمبلی میں اکثریت رکھنے کے باوجود تین کنفرم نشستوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔ جس سے تحریک انصاف کی سینٹ میں عددی برتری اور سیاسی پوزیشن خطرے میں پڑ گئی ہے۔
خیال رہے کہ الیکشن کمیشن نے 2 اپریل 2024 کو مخصوص نشستوں پر منتخب ممبران صوبائی اسمبلی سے حلف نہ لینے اور الیکٹورل کالج نامکمل ہونے کی وجہ سے ملتوی کئے تھے تاہم اب سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد الیکٹورل کالج مکمل ہونے کے بعد الیکشن کمیشن نے خیبر پختونخوامیں ایوان بالا کی11خالی نشستوں پرانتخابات کا شیڈول جاری کردیا ہے جاری کردہ شیڈول کے مطابق 21جولائی کو صوبہ خیبر پختونخوا سے سینیٹ کی 7جنرل ، 2ٹیکنوکریٹ اور خواتین کی 2نشستوں پر نئے سینیٹرز کا چناؤ ہوگا، خیبر پختونخوا اسمبلی کے145 ایم پی ایز ایوان بالا کے نئے اراکین کے انتخاب کے لئے حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد صوبائی اسمبلی کی مخصوص نشستوں کی اپوزیشن جماعتوں میں تقسیم کے بعد صوبہ کی حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کو سینیٹ انتخابات میں شدید نقصان اٹھانے اور کم از کم3 کنفرم نشستوں سے ہاتھ دھونے کا امکان ہے کیونکہ صوبائی اسمبلی کے145 رکنی ایوان میں اپوزیشن جماعتوں کے اراکین کی مجموعی تعداد28 سے بڑھ کر53 ہوگئی ہے جبکہ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد ایم پی ایز کیساتھ حکمران جماعت کے92ممبران ہیں۔
ذرائع کے مطابق سینیٹ کی جنرل نشست پر کامیابی کیلئے19 جبکہ ٹیکنوکریٹ اور خواتین کی سیٹ پر فتحیابی کیلئے 49 ووٹ درکار ہوں گے ،اس طرح ایوان بالا کی 11نشستوں میں تحریک انصاف کو کل 7نشستیں ملنے کا امکان ہے جن میں 5جنرل ، ایک ٹیکنوکریٹ اور ایک خواتین کی نشست شامل ہے ، دوسری جانب مخصوص نشستیں ملنے کے بعد اپوزیشن جماعتوں کے سینیٹ کی 4نشستوں پر کامیابی کے امکانات روشن ہوگئے ہیں تاہم اگر سپریم کورٹ کے حکم پر اپوزیشن جماعتوں کو مخصوص نشستیں نہ ملتیں تو اپوزیشن اتحاد صرف ایک جنرل نشست جیتنے کی پوزیشن میں ہوتا۔
مبصرین کے مطابق خیبرپختونخوا میں سینیٹ انتخابات کے حوالے سے مخصوص نشستوں کا تنازع تحریک انصاف کے لیے نہ صرف صوبائی سطح پر بلکہ قومی سیاست میں بھی بڑا دھچکا ثابت ہو سکتا ہے۔ تجزیہ کاروں کا مزید کہنا ہے کہ اگرتحریک انصاف خیبرپختونخوا سے سینیٹ کی تین کنفرم نشستیں ہار جاتی ہے تو سینیٹ میں اس کی عددی پوزیشن مزید کمزور ہو جائے گی کیونکہ سینیٹ ایک ایسا ایوان ہے جہاں معمولی فرق بھی بڑی قانون سازی یا آئینی ترامیم کے راستے میں رکاوٹ یا معاون ثابت ہو سکتا ہے اور ایسی صورت میں اپوزیشن کو غیر متوقع طور پر فائدہ پہنچ سکتا ہے۔
تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ خیبرپختونخوا سے ایوان بالا کی نشستیں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی یا جے یو آئی جیسے اپوزیشن اتحاد کو ملنے کے بعد سینیٹ میں ان کی مجموعی تعداد میں اضافہ ہوگا، جس سے وہ مضبوط پوزیشن حاصل کر لیں گے۔ مبصرین کے بقول اس وقت سینیٹ آف پاکستان میں تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں کے پاس 22 نشستیں ہیں، جبکہ مختلف ادوار میں ہونے والے ضمنی انتخابات اور ارکان کے مستعفی ہونے یا مدت پوری ہونے کے باعث یہ تعداد تھوڑی بہت اتار چڑھاؤ کا شکار رہی ہے۔ اگر خیبرپختونخوا سے ہونے والے سینیٹ انتخابات میں پی ٹی آئی اپنی متوقع 7 میں سے صرف 4 نشستیں حاصل کر پاتی ہے اور باقی 3 اپوزیشن لے جاتی ہے، تو پی ٹی آئی کی سینیٹ میں مجموعی تعداد 22 سے گھٹ کر ممکنہ طور پر 19 یا اس سے بھی کم رہ جائے گی۔ دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں کی نشستیں بڑھ کر 55 کے قریب ہو سکتی ہیں، جس سے وہ قانون سازی، چیئرمین سینیٹ کے انتخاب اور دیگر اہم فیصلوں پر فیصلہ کن اکثریت حاصل کر لیں گی۔ اس معمولی فرق کے باوجود سینیٹ میں طاقت کا توازن واضح طور پر اپوزیشن کے حق میں جھک جائے گا۔
تحریک انصاف کا اڈیالہ گروپ اور کوٹ لکھپت گروپ آمنے سامنے
یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے خیبرپختونخوا اسمبلی میں خواتین کی 21 مخصوص نشستیں بحال کر دی تھیں، جن میں جے یو آئی (ف) کو 8، مسلم لیگ (ن) کو 6، پیپلز پارٹی کو 5، جبکہ تحریک انصاف پارلیمنٹیرین اور اے این پی کو ایک، ایک نشست ملی تھی۔ اسی طرح اقلیتوں کی 4 مخصوص نشستیں بھی بحال کی گئی تھیں، جن میں 2 جے یو آئی، جبکہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو ایک ایک نشست ملی تھی۔الیکشن کمیشن نے اس کے ساتھ ساتھ قومی، پنجاب، خیبرپختونخوا اور سندھ اسمبلیوں میں جنرل نشستوں پر کامیاب ہونے والے ان امیدواروں کا نوٹیفکیشن بھی واپس لے لیا تھا، جنہیں پہلے پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار قرار دیا گیا تھا۔